پہلے صف عشاق میں میرا ہی لہو چاٹ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پہلے صف عشاق میں میرا ہی لہو چاٹ
by ولی اللہ محب

پہلے صف عشاق میں میرا ہی لہو چاٹ
شمشیر نگہ تیری نے کیا کیا نہ کیا کاٹ

گلشن میں ہنسی دیکھ کے اس گل کی یکایک
حسرت سے گئے غنچوں کے یک لخت جگر پھاٹ

اتنا بھی دیا صبر نہ اس نفس دنی کو
کتے کی طرح بیٹھتا قسمت کا دیا چاٹ

دھلوائیے کیا جامۂ عصیاں کو بساؤ
چل کوچ میں دریا کے کنارے ہیں کھڑے گھاٹ

ہو غلۂ خلقت سے نہ سودائے محبت
ہے عشق کی دکان سو بنئے کی نہیں ہاٹ

اک پشم نظر ان کی میں ہے شال دوشالہ
جو بیٹھے بچھا بوریا اور اوڑھ لیا ٹاٹ

ستر دو بہتر ہیں طریق ان سے علاحدہ
ہے عشق کی منزل کی جدی راہ جدی باٹ

عشقیہ کہے شعر و یا مدح و مناقب
عالم کا بنواڑا کہے شاعر نہیں ہے بھاٹ

تب رفع خلش ہوئے میاں دل سے محبؔ کے
کہتے ہیں سو تجھ سے کہے دل کھول کے دکھ باٹ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse