نہ لگا لے گئے جہاں دل کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ لگا لے گئے جہاں دل کو
by میر اثر

نہ لگا لے گئے جہاں دل کو
آہ لے جائیے کہاں دل کو

مجھ سے لے تو چلے ہو دیکھو پر
توڑیو مت کہیں میاں دل کو

آزما اور جس میں چاہے تو
صبر میں کر نہ امتحاں دل کو

یوں تو کیا بات ہے تری لیکن
وہ نہ نکلا جو تھا گماں دل کو

رکھ نہ تو اب دریغ نیم نگاہ
مار مت دیکھ نیم جاں دل کو

آہ کیا کیجے یاں بنایا ہے
دل گرفتہ ہی غنچہ ساں دل کو

مر گیا پس گیا نہ کی پر آہ
آفریں ایسے بے زباں دل کو

دشمنی تو ہی اس سے کرتا ہے
دوست رکھتا ہے اک جہاں دل کو

مہربانی تو کی نہ ظاہر میں
رکھئے بارے تو مہرباں دل کو

لیجئے گا نہ لیجئے گا پھر
دیکھیے تو سہی بتاں دل کو

آزمانا کہیں نہ سختی سے
دیکھیو میرے ناتواں دل کو

تو بھی جی میں اسے جگہ دیجو
منزلت تھی اثرؔ کے ہاں دل کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse