میں تجھے واہ کیا تماشا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میں تجھے واہ کیا تماشا ہے
by میر اثر

میں تجھے واہ کیا تماشا ہے
ذہن میں آشنا تراشا ہے

ہاتھ میں رکھیو تو سنبھالے ہوئے
دل تو میرا یہ سیشا باشا ہے

تو جو تولے ہے میرے من کی چاہ
کچھ ترے ہاں بھی تولہ ماشہ ہے

کیا کہوں تیری کاوش مژہ نے
کس طرح سے جگر خراشا ہے

خیر گزرے اثرؔ تو ہے بے باک
اور وہ شوخ بے تحاشا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse