مینا بازار/چوتھا باب: مخالفتیں اور اعتراضات

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

چوتھا باب

مخالفتیں اور اعتراضات


بازار کی تکمیل کے لیے جو مدت مقرر کی گئی تھی پوری ہو گئی اور اس اثنا میں بعض معزز ہندو فرماں رواؤں کی طرف سے نواب تاج محل کی خدمت میں اس مضمون کی عرضداشتیں پیش ہوئیں کہ “ہندو رانیاں اور تمام معزز و شریف عورتوں کو شرکت میں مطلق تامل نہیں، اس لیے کہ مینا بازار کی شرکت اُن کے لیے باعث عزت و سرفرازی ہے اور حضرت عرش آشیانی اکبر بادشاہ انار اللہ برہانہ کے عہد سے اُنھیں محلات عصمت آیات سے ملنے میں کوئی تامل بھی نہیں رہا۔ چنانچہ اُس عہد دولت مہد کے مینا بازار میں انھیں شرکت کا فخر بھی حاصل ہو چکا ہے مگر یہ مینا بازار چونکہ بڑے اعلیٰ اور وسیع پیمانے پر کھولا جائے گا اور اس میں ہر درجے اور ہر طبقے کی مسلمان خاتونیں شریک ہوں گی، لہذا انھیں اندیشہ ہے کہ کوئی بات ان کی شان اور ان کے رتبے کے خلاف نہ ہو۔ اُن کے اور مسلمان خاتونوں کے مذاق میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اُن کی زبان جُدا، وضع جُدا، مذہب جُدا، مذاق جُدا اور معاشرت جُدا ہے۔ جس طرح وہ مسلمان بیویوں کے آداب و اخلاق سے واقف نہیں ہیں، اُسی طرح مسلمان بیگمیں اُن کے آداب و اخلاق سے ناآشنا ہیں۔ ممکن ہے کہ دونوں کے باہمی میل جول میں کوئی ایسی بات پیدا ہو جو انھیں یا اُن کی وجہ سےمسلمان خاتونوں کو ناگوار گذرے۔

اس کے جواب میں ملکہ جہاں تاج محل صاحبہ کی جانب سے پورا اطمینان دلایا گیا اور پھر عام طور پر اعلان کر دیا گیا کہ اس مینا بازار کا مقصد اصلی یہ ہے کہ ہندو مسلمان بیویوں اور اعلیٰ و ادنیٰ عورتوں میں خلوص و محبت کے تعلقات بڑھیں اور سب عورتیں باہمی الفت اور ایک دوسرے کے حفظ مراتب کا خیال کرنا سیکھیں۔ ہندو رانیوں اور معزز بیویوں کے ساتھ بالکل برابری اور بہناپے کا برتاؤ ہوگا۔ اُن کی بود و باش اور اُن کی ضیافت کا اہتمام خاص اُن کے مذاق و رواج کے مطابق کیا جائے گا اور اس میں پوری کوشش صرف کر دی جائے گی کہ دونوں مذہبوں کی خاتونوں کے ساتھ اُن کے درجے اور رتبے کے مطابق سلوک ہو اور امیر زادیاں غریب عورتوں سے اپنی بہنوں کی طرح ملیں۔ ان باتوں کا خود حضرت ملکۂ آفاق بہ نفس نفیس شریک ہو کر اندازہ فرمائیں گی۔ مگر ہاں ہندو رانیوں سے امید کی جاتی ہے کہ نہ اپنی قوم کی غریب بیویوں کو سُبکی و حقارت کی نگاہ سے دیکھیں نہ دوسری قوم کی عورتوں کو، اس لیے کہ ہمارا اصلی مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کے سارے رہنے والوں کو جہاں تک بنے ایک قوم اور ایک درجے کا بنا دیں۔

اس اطمینان بخش جواب نے سارے ہندو مسلمانوں کو اطمینان دلا دیا۔ خصوصاً اُن قصباتی مسلمان گھرانوں کو جو اپنی عورتوں کے کسی غیر خاندان میں چلے جانے کو بھی اپنی سُبکی و بے عزتی تصور کرتے ہیں۔ اگرچہ ایسے خاندانوں کی بہت ہی کم عورتیں اس بازار میں آئیں مگر ان کے لیے بھی اعتراض کی کوئی گنجائش نہ تھی۔

پھر بعض مذہبی لوگوں اور پُرانی وضع کے نباہنے والوں کی طرف سے اعتراض ہوا کہ “عہد اکبری کےمینا بازار کی طرح اس میں بھی عورتوں کی بے پردگی ہوگی۔ اگر بادشاہ اور اُمرا وغیرہ بازار کے اندر نہ جاتے تو مناسب تھا۔ اس کا جواب حضرت بادشاہ بیگم کی طرف سے یہ دیا گیا کہ “مینا بازار میں کسی کی پردہ دری ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ حضور شاہنشاہ کی رونق افروزی کے وقت جو بیویاں چاہیں اپنے چہروں پر نقاب ڈال لیں، کوئی انھیں نقاب اُلٹنے پر مجبور نہ کرے گا اور دین اسلام میں بس اتنا ہی پردہ ہے۔ حضرت رسول خدا صلعم کے عہدِ ہُمایوں میں معزز و شریف بیویاں مسجدوں میں جاتی تھیں، عید گاہوں میں پہنچتی تھیں، سودے سُلَف اور ضروری کاموں کے لیے باہر نکلتی تھیںا ور بعض بہادر بیویاں جہاد میں کفار سے مقابلہ کرتی تھیں۔ اگر مروجہ پردہ ہوتا تو ان میں سے کوئی کام بھی نہ ہو سکتا۔ اگرچہ حضرت ظل اللہ جہاں پناہ تمام عورتوں کے محرم سمجھے جاتے ہیں، ملک کی تمام عورتیں یا اُن کی مائیں ہیں یا بہنیں ہیں یا بیٹیاں؛ مگر مینا بازار چونکہ حضور رَس اہل دربار ہی کے لیے خاص نہیں ہے، اس لیے اس میں یہ قاعدہ اٹھا دیا گیا اور تمام شریک ہونے والیوں کو اختیار ہے کہ چاہیں اپنا چہرہ کھولیں چاہیں نہ کھولیں۔ مگر اتنی اصلاح کے ساتھ کہ انھیں برقع کی اجازت نہیں ہے۔ صرف نقاب چہرے پر ڈال لیں جو نہایت پُرتکلف اور زرتار ہوگی اور بازار ہی میں درخواست کرنے پر حضور ملکۂ جہاں کی سرکار سے اُن کو عطا ہوگی”۔

مگرعلما بھلا کب خاموش رہنے والے ہیں۔ انھوں نے پھر اعتراض کیا کہ “ایسی زرتار و پرتکلف نقابیں تو زیور یا زینت کا کام دیں گی اور قرآن مجید میں عورتوں کو اپنی زینت ہی کے چھپانے کا حکم ہے۔ اس نے سارے شہر میں پھر ایک جھگڑا پیدا کر دیا۔ گھروں میں مینا بازار میں جانے کے جائز یا ناجائز ہونے پر بحثیں ہونے لگیں۔ صاحب علم اور جاہل ہر طبقے کے مردوں میں مباحثے ہونے لگے اور انجام یہ ہوا کہ بہت سی عورتیں جو آنے پر آمادہ تھیں، اُن کے ارادے بھی متزلزل ہو گئے۔

محل کی ملازمہ عورتوں سے یہ خبر نواب تاج محل کے کانوں تک پہنچی اور انھوں نے جیسے ہی حضرت جہاں پناہ محل میں آئے اُن سے کہا “وہ جو میں نے کہا تھا کہ اس بازار میں عورتیں ہی بیچنے والی اور عورتیں ہی خریدار ہوں وہ آج سارے شہر کی عورتوں کی زبان پر ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ علما کہتے ہیں زرتار نقاب بھی عورتوں کی زینت میں داخل ہے جس کو چھپانا چاہیے۔ اور اس کا اثر یہ ہوا کہ بہت سی پابند شرع عورتیں مینا بازار میں آنے کے خلاف ہو گئیں”۔

جہاں پناہ: یہ بُرا ہوا مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ علما کو باوجود ہر طرح کی بُری بھلی باتیں گوارا کر لینے کے اس پر اعتراض کرنے سے کیا ملا گیا؟

تاج محل: اس کو علما ہی سے بُلوا کے دریافت کیجیے۔ مگر میں بھی انھیں کے کہنے کو سچ جانتی ہوں اور فرض کیجیے انھوں نے کسی امر میں سُستی کی تو کیا ضرور ہے کہ اس میں بھی سُستی کریں۔

جہاں پناہ: میں تو اس معاملے میں اُن سے بحث کروں گا۔

تاج محل: تو اور عالموں کے بلانے سے پہلے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے محل کے میر سامان علاء الملک تولی کو اندر بُلوا کے گفتگو کیجیے۔ وہ بہت بڑے عالم و فاضل اور علامہ دہر ہیں۔ میں بھی چلمن کی آڑ میں بیٹھ کے سنوں گی۔ دیکھوں وہ آپ کوقائل کرتےہیں یا آپ اُن کو۔

جہاں پناہ: بہتر، میں اُن سے گفتگو کرنے کو تیار ہوں۔ اگرچہ میں اُن کے برابر عالم و فاضل نہیں ہوں۔ مگر اس مسئلہ میں اکثر عالموں اور فقیہوں سے خوب خوب بحثیں کر کے خوب سمجھ گیا ہوں کہ شرع کا کیا منشا ہے؟

اُسی وقت بادشاہ بیگم کے حکم سے ایک خواص دوڑی کہ علاء الملک کو بُلا لائے۔ وہ محل کے مردانے حصے میں ہر وقت موجود رہتے تھے۔ حکم ہوتے ہی آ گئے۔ ایک صحنچی میں چلمن چھوڑ دی گئی۔ بادشاہ بیگم اُٹھ کے اُس کی آڑ میں ہو گئیں، محل میں مردانہ ہوگیا۔ دو چار خواصیں چلمن کے پاس اُدھر جا کے کھڑی ہوئیں کہ ملکۂ جہاں کے احکام بجا لانے کے لیے تیار رہیں۔

پردے کا بخوبی انتظام ہو جانے کے بعد مُلا علاء الملک اندر بُلائے گئے جنھوں نے سامنے آتے ہیں حسب آداب شاہی جھک کے سات سلام کیے اور ہاتھ باندھ کے کھڑے ہو گئے۔ جہاں پناہ نے اپنے قریب ایک چوکی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کہا: “میں نے اس وقت تم کو ایک شرعی مسئلہ پوچھنےکےلیے بلایا ہے۔مگر شرط یہ ہے کہ آزادی سے گفتگو کرو اور جو سچ ہو صاف کہہ دو۔ اگر میں مخالفت کروں تو تم کو مروت یا ادب کے خیال سے موافقت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

مُلا صاحب: حضرت جہاں پناہ کے حکم کے بموجب فدوی آزادی سے گفتگو کرے گا۔

جہاں پناہ: تم کو معلوم ہے کہ عنقریب ملکۂ زمانہ ایک مینا بازار کھولنے والی ہیں۔ اگرچہ اُس میں پردے کا یہ انتظام کر دیا ہے کہ جو عورت سامنے آنا پسند نہ کرے ایک زرتار نقاب چہرے پر ڈال لے۔ مگر سُنتا ہوں کہ علما اُس کے بھی خلاف ہیں اور اس کو ناجائز بتاتے ہیں۔

مُلا صاحب: میں اس اعتراض کو سُن چکا ہوں۔ اصلی فتوی دینے والے مولانا عبد الحکیم سیالکوٹی ہیں۔ اُن کا دعوی ہے کہ زرتار نقاب بجائے خود زینت ہے اور قرآن مجید میں عورتوں کو اپنی زینت ہی کے چھپانے کا حکم ہے۔

جہاں پناہ: تمھارے زینت کے ساتھ ہی کہنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اور کسی چیز کے چھپانے کا حکم قرآن مجید میں نہیں ہے۔

مُلا صاحب: بے شک قرآن مجید میں اتنا ہی ہے۔

جہاں پناہ:تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ عورتیں اپنے کپڑوں اور اپنی نقابوں کو چھپائیں اور اپنے چہروں کو کھلا رکھیں۔ مولانا اس کا فتوی دیں گے؟ کیونکہ پھر عورتوں کو اختیار ہو جائے گا کہ آزادی سے ہر جگہ آیا جایا کریں۔

ملا صاحب: بے شک یہ نتیجہ نکلتا ہے اور اسی وجہ سے اگلے اور پچھلے تمام مفسرین اور فقہا و محدثین نے یہ رائے قرار دی ہے کہ قرآن پاک میں “زینت” کا جو لفظ آیا ہے، اُس سے مُراد “محل زینت” ہے یعنی وہ حصہ جسم چھپائیں جس کی زینت کی جاتی ہو۔

جہاں پناہ: کیا اس تاویل پر اگلے پچھلے تمام علما کو اتفاق ہے؟ اور اسی پر فقہا کا فتوی ہے؟

ملا صاحب: بے شک سب کا اتفاق ہے اور اسی پر سب کا عملدرآمد بھی ہے۔

جہاں پناہ (ذرا مسکرا کر): تو اس تاویل سے یہ نتیجہ نکلا کہ از روئے کلام اللہ عورتیں اپنے ان اعضا کو چھپائیں جن کی زینت کی جاتی ہے۔ یہی ہے نہ؟

مُلا صاحب: بالکل یہی۔

جہاں پناہ: تو پھر مولانا عبد الحکیم صاحب نقاب کی کیوں ممانعت کرتےہیں؟ جس آیت کی بنا پر وہ یہ حکم دیتے ہیں وہ تو اعضا سے متعلق ہو گئی۔ اب خود زینت کی چیز یا سامان زینت کا چھپانا وہ کس آیت سے ناجائز ثابت کرتے ہیں؟

ملا صاحب (ذرا پریشان و متردد ہو کر): حضرت ظل سبحانی کا اعتراض بالکل بجا و درست ہے۔ مگر اس مسئلے کی بنا صرف نص قرآنی پر نہیں ہے بلکہ احادیث، تصریحات سلف خصوصاً قرون اولیٰ، علمائے متاخرین کے فتووں اور رواج پر ہے۔

جہاں پناہ: تم نے اپنے لیے بڑی بھاری گنجائش نکال لی لیکن یاد رکھو کہ تمھاری سندوں کے اس ذخیرے میں اختلاف بھی بہت ہوگا جیسا کہ فتاووں اور اقوال سلف میں اکثر ہوا کرتا ہے۔

ملا صاحب: اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا مگر طریقہ یہ ہے کہ علمائے زمانہ اُس ذخیرۂ اسناد پر غور کر کے جس نتیجے کو پہنچیں اور فتوی دیں اس پر عمل کرنا چاہیے۔

جہاں پناہ: میں متفق علیہ مسائل میں اس اصول کو مان لوں گا۔ لیکن اگر باہم اختلاف پڑے تو اُس وقت اس سے مفر نہ ہوگا کہ قرآن و حدیث کی طرف رجوع کیا جائے۔ خود خدائے تعالیٰ فرماتا ہے فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ (اگر تم میں کسی معاملے میں نزاع پیدا ہو تو خدا و رسول کی طرف رجوع کرو)۔ اس مسئلہ میں چونکہ بعض اہل علم مولانا کے خلاف بھی ہیں لہذا اب تم کو یا ان کو قرآن و حدیث سے دلیل لانی پڑے گی۔ بغیر اس کے کچھ فرض نہیں ہے کہ ہر شخص آپ کے فتوے کو مانے اور آپ کے کہنے پر عمل کرے۔

ملا صاحب: مگر عوام الناس اپنے زمانے ہی کے علما کی پیروی پر مجبور ہیں۔ یہ فقہ کا اصولی مسئلہ ہے کہ “العامی لا مذہب لہ” (عام آدمی کا کوئی مذہب نہیں)۔

جہاں پناہ: اس صورت میں کہ کسی دوسرے عالم کو اختلاف نہ ہو۔ لیکن اگر علما میں اختلاف ہو تو عام لوگوں کے لیے جائز ہے کہ جس کی پیروی چاہیں اختیار کر لیں۔ اس معاملے میں علمائے دہلی نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔ اُن میں سے کسی کو بھی اس مینا بازار کے جائز ہونے میں شک نہیں۔ صرف ملا عبد الحکیم صاحب اور چند اُن کے ہم خیالوں نے اعتراض کر دیا تو عام لوگوں کو حق حاصل ہے کہ چاہیں ملا صاحب کی پیروی کریں اور چاہیں دیگر علما کے کہنے پر عمل کریں۔

ملا صاحب: حضرت کا فرمانا بالکل درست اور شرعاً قابل تسلیم ہے۔ میں اس وقت مولانا عبد الحکیم صاحب کی نیابت کر رہا تھا اور دل میں کہتا تھا کہ جب ایک بزرگ عالم نے کوئی فتوی دے دیا تو اُس سے اختلاف کرنا خلاف مصلحت ہے۔ لیکن بندگان خسروی نے بحث کو کُرید کے یہاں تک پہنچا دیا تو اب اپنا اصلی مسلک بھی ظاہر کیے دیتا ہوں۔ مجھے خود اس مسئلہ میں مولانائے سیالکوٹی سے اختلاف ہے۔ اگر مینا بازار میں یہ ہوتا کہ عورتیں بے برقع و نقاب مردوں کے سامنے آئیں تو بے شک ناجائز ہوتا۔ نقاب کی اجازت دیے جانے کے بعد چاہے وہ کیسی اور کس قسم کی ہو اس بازار کے جواز میں کسی کو شک نہ کرناچاہیے۔

ملا علاء الملک کی یہ تقریر سُن کے جہاں پناہ کو بڑی مسرت ہوئی اور فرمایا: “اگرچہ اس مسئلہ میں بعض اہل علم کے ساتھ میں غور کر چکا ہوں مگر تم سے بحث کرنے کی لیاقت مجھ میں نہیں ہے۔ تم عالم و فاضل ہو، تمام علوم دینیہ کا مطالعہ کر چکے ہو، اور میں تمھارے مقابل جاہل بحت۔ سچ بتاؤ میں نے اس بحث میں کوئی بےجا بات تو نہیں کہی؟

ملا صاحب: حضور نے جو کچھ فرمایا بالکل بجا ارشاد ہوا اور ایسی معقول بحث کی کہ مجھے قائل کر کے اپنا اصلی مسلک ظاہر کرنے پر مجبور کر دیا۔

جہاں پناہ: تو پھر ایک کام کرو۔ اس مسئلہ کا ایک استفتا لکھ کر اس کا جواب اپنے فیصلے کے مطابق تم بھی لکھو اور دہلی کے تمام علما سے بھی اُس پر دستخط کراؤ۔ پھر اُسے عام طور پر شائع کر دو اور اس کی نقلیں جابجا شاہراہوں اور گلیوں میں لگا دی جائیں تاکہ عوام کے دلوں سے مینا بازار کی شرکت کے ناجائز ہونے کا خیال دور ہو۔

ملا صاحب: حضرت ظل السبحان کے حکم میں مجھے کوئی عذر نہیں ہے۔ تاہم اگرچہ کوئی عذر نہیں ہے لیکن اگر کوئی ایسی صورت پیدا ہوتی کہ علمائے اسلام میں تفرقہ نہ پڑے تو زیادہ بہتر ہوتا ہے۔

جہاں پناہ: وہ کون سی صورت ہے؟

ملا صاحب: ضرورت ہی کیا ہے کہ وہ نقابیں زرتار یا رنگین ہوں۔ اعلان کر دیا جا سکتا ہے کہ عورتیں جس قسم کی سادی یا پُرتکلف نقابیں چہروں پر ڈال کے آئیں آ سکتی ہیں اور زرتار نقابوں کی جو قید لگائی گئی تھی اور اُن کی تیاری کے لیے جو خاص اہتمام ہونے والا تھا ملتوی کیا گیا۔

جہاں پناہ: ہے تو آسان اور معقول بات مگر میرا جی نہیں چاہتا کہ ملکۂ زمانہ جو حکم جاری کر چکیں اُس میں رد و بدل کیا جائے۔

قبل اس کے کہ ملا صاحب کچھ کہیں ایک خواص نے سامنے آ کے دست بستہ عرض کیا: “حضرت ملکہ زمانہ ارشاد فرماتی ہیں کہ مجھے ملا صاحب کی رائے سے اتفاق ہے۔ رعایا کے اطمینان کے لیے میں اپنے ہر حکم کے بدلنے کو تیار ہوں۔ اگر حضرت جہاں پناہ کی مرضی کے خلاف نہ ہوتو اعلان کر دیا جائے کہ کسی خاص قسم کی نقاب کی قید نہیں۔ عورتیں جیسی نقابیں چہروں پر ڈال کے چاہیں آئیں۔

یہ سُن کے جہاں پناہ نے فرمایا: “جب انھیں منظور ہے تو مجھے بھی کچھ عذر نہیں۔ لہذا جیسا وہ فرمائیں کل ہی سارے شہر میں شائع کر دیا جائے”۔

ملا صاحب: حضرت ملکہ عالم کی اس بے نفسی، رعایا نوازی و دینداری دیکھ کر میں حضرت خدائے عز و جل کا ہزار ہزار شکر کرتا ہوں۔ اگر جناب عالیہ پہلے حکم کے برقرار رکھنے اور حضرت ظل اللہ کے ارشاد کے مطابق مخالفانہ فتوی شائع کرنے پر اصرار فرماتیں تو انھیں اس کا حق تھا اور ان کے لیے جائز بھی تھا۔ مینا بازار کامیابی سے ہوتا، لوگوں کو اطمینان ہو جاتا اور عورتیں وہی خوبصورت نقاب چہروں پر ڈالتیں جو حضور کے شوق کے مطابق تھی۔ مگر علما میں تفرقہ پڑ جاتا اور آخر میں اس سے شرع شریف میں رخنہ پڑتا۔ الحمد للہ کہ اسلام سے یہ مصیبت دُور ہو گئی۔

اب ملا علاء الملک تولی خلعت و انعام دے کر رخصت کیے گئے اور ان کے جاتے ہی نواب ممتاز الزمانی پھر آ کے حضرت جہاں پناہ کے پاس بیٹھ گئیں ا ور اپنی عادت کے خلاف ہنس کے کہنے لگیں: “حضرت نے تو آج بڑے بڑے علم والوں کی طرح گفتگو کی اور بحث میں عالموں کے کان کاٹ لیے۔ میں آپ کو اتنا بڑا عالم نہ سمجھتی تھی۔”

جہاں پناہ: اور جو تم سمجھتی تھیں وہی صحیح بھی ہے۔ میں نے کم سنی میں عربی علموں کو بخوبی حاصل کیا تھا۔ تفسیر و حدیث و فقہ کی درسی کتابیں بھی پڑھی تھیں، اس لیے مسائل دینی کی بعض اصولی باتیں آج تک ذہن میں باقی ہیں۔ ان دینی علموں کو چھوڑ کے فنون جنگ میں ایسا پھنسا کہ جو کچھ سیکھا تھا بھول گیا۔ علما درسیات پڑھنے کے بعد بڑی بڑی کتابوں کا مطالعہ کر کے تبحر پیدا کرتے ہیں۔ مجھے اس کی کبھی فرصت نہیں ملی۔ اس لیے میں ان لوگوں سے کبھی کسی مسئلہ میں بحث نہیں کرتا کیونکہ ان کے مقابل طفل مکتب ہوں۔ لیکن اس مسئلہ میں محض تمھارے شوق کے خیال سے مدت کی چھوڑی ہوئی کتابوں کو منگوا کے پھر پڑھا، دربار کے ذی علم لوگوں سے بحثیں کیں اور خیال کیا کہ اب میں اس مسئلہ میں بحث کر لوں گا۔ اور اسی کا نتیجہ تھا کہ علاء الملک سے ایسی بحث کی کہ انھیں خاموش ہو جانا پڑا۔

تاج محل: خاموش ہونا کیسا، حضرت نے تو ایسا قائل کیا کہ انھیں جواب نہ بن پڑتا تھا اور آخرمیں آپ کا کلمہ پڑھنے لگے۔

جہاں پناہ: میرا یہ خیال تو نہیں ہے کہ وہ مجھ سے قائل ہو گئے اور میرے بحث کرنے سے ان کی راے بدل گئی۔ اصل میں وہ ملا عبد الحکیم صاحب کے فتوے کی مخالفت کرنا نہ چاہتے تھے اور ان کی یہ بات مجھے بہت پسند آئی کہ عالموں میں اختلاف ہونے کو دین کا رخنہ خیال کرتے ہیں۔ وہ اگرچہ اپنے ذاتی فیصلے میں ملا صاحب کے خلاف تھے مگر میرے سامنے انھیں کی جنبہ داری کر رہے تھے۔ پھر جب میں نے اصولی الزام دیے اور گفتگو کی گنجائش نہ باقی رکھی تو اپنا مذہب صاف ظاہر کر دیا۔ یہ نہ سمجھو کہ میں نے قائل کر کے ان کی رائے بدل دی۔

تاج محل: چاہے جو ہو مگر مجھے تو یہی نظر آیا کہ آپ نے قائل کر کے انھیں اپنے موافق بنا لیا۔

جہاں پناہ: اور تم نے بھی بہت اچھا کیا کہ سادی نقاب منظور کر کے جھگڑا مٹا دیا۔

تاج محل: جی تو چاہتا تھا کہ آپ ہی کے فتوےپر عمل کر کے پہلا اعلان قائم رکھوں مگر پھر دل نے یہ کہا کہ یہ دین و ایمان کا معاملہ ہے، اس میں ضد نہ کرنی چاہیے۔

جہاں پناہ: یہی کرنا چاہیے۔ میں نے بھی اگرچہ صرف تمھاری دلداری کے خیال سے تمھارے حکم میں ترمیم نہیں پسند کی تھی مگر جب خود تم کو اس معاملے میں بے نفس پایا تو فوراً اس خیال سے باز آ گیا۔ خیر اب کل سادی نقابوں کا اعلان کر دیا جائے اور ساتھ ہی یہ بھی شائع کر دیا جائے کہ آئندہ جمعہ کو بعد نماز جمعہ مینا بازار کا افتتاح ہوگا۔ اس کے متعلق جو اصلاحیں کی گئی تھیں وہ بھی پوری ہو گئیں۔ میں پرسوں دیکھ آیا کہ سب چیزیں تمھاری مرضی کے موافق مکمل ہو گئیں اور کسی بات کی کسر نہیں ہے۔ کل تم بھی سوار ہو کے دیکھ آنا۔ جمعہ کو چھ دن باقی ہیں۔ اگر تم کوئی معمولی رد و بدل چاہوگی تو وہ بھی ہو سکتا ہے۔

تاج محل: کل میں ضرور جاؤں گی اور جہاں آرا و روشن آرا کو بھی لیتی جاؤں گی۔

جہاں پناہ: جہاں آرا کو ضرور لے جانا۔ وہ زہد و عبادت اور ریاضت و نفس کشی میں اس قدر منہمک ہو گئی ہے کہ دنیوی کاموں میں اس کا بہت کم دل لگتا ہے۔ مگر شاہزادیوں کو دین کے ساتھ دنیا کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے۔

تاج محل: بے شک خانوادۂ چشت میں مرید ہو کر اس میں بہت بے نفسی آ گئی ہےمگر اتنا نہیں کہ جائز سیر و تفریح سے بھی پرہیز کرے۔

اس گفتگو کے بعد بادشاہ نماز عشا کے لیے موتی مسجد میں تشریف لے گئے اور صحبت ختم ہوئی۔