مینا بازار/دوسرا باب: مینا بازار کی تجویز

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

دوسرا باب

مینا بازار کی تجویز


اُسی دن شام کو حضرت صاحب قرانِ ثانی شاہجہاں بادشاہ اپنے خاص محل میں ایک طلائی تخت پر بیٹھے تھے اور اُن کے برابر ملکہ جہاں تاج محل ممتاز الزمانی ارجمند بانو بیگم بیٹھی تھیں۔ خواصیں اِدھر اُدھر دروازوں کے پاس خاموش کھڑی تھیں اور گوش برآواز تھیں کہ کوئی حکم ہو اور دوڑ کے بجا لائیں۔

تاج محل نہایت متین و سنجیدہ ملکہ تھیں۔ اگرچہ عمر پچاس سال سے گذر گئی تھی مگر چہرے پر اگلے حُسن کی شوخیوں کی جگہ اب بلا کی متانت و سنجیدگی تھی۔ ہر امر میں اپنے صاحب طبل و علم شوہر کی مرضی پر چلتیں اور ممکن نہ تھا کہ کبھی کسی بات میں اُن کے حکم کے خلاف کریں۔ اسی طرح صاحب قران ثانی کی بھی یہ حالت تھی کہ کوئی بات بغیر اُن سے پوچھے نہ کرتے اور وجہ یہ تھی کہ نواب ممتاز محل صرف جوانانہ عشق و محبت کا کھلونا نہ تھیں، بلکہ بادشاہ کے چاروں نامور و جواں بخت فرزندوں کی ماں تھیں اور حضرت ظل اللہ کی محل کی زندگی پر پوری قابض و حکمران تھیں۔

بادشاہ کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا کہ کوئی بات کہنا چاہتے ہیں مگر کسی مصلحت سے نہیں ظاہر کرتے۔ بات مُنہ تک آتی اور رُک جاتی ہے اور اس گومگو میں ہیں کہ کہیں یا نہ کہیں۔ اس بات کو ممتاز الزمانی بیگم نے بھی محسوس کیا، مگر وہ بھی اس بلا کی عقلمند و ضابط تھیں کہ اپنی متانت میں فرق نہ آنے دیا۔ بلکہ حتی الامکان اس کو بادشاہ پر ظاہر بھی نہ ہونے دیا کہ میں نے صاحب تاج شوہر کے صفحۂ دل کی تحریر کا کچھ حصہ پڑھ لیا ہے۔

آخر بادشاہ دل کو مضبوط کر کے ملکہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: “بیگم! ایک بات کہنا چاہتا ہوں مگر دیر سے پس و پیش کر رہا ہوں کہ کہوں یا نہ کہوں؟

تاج محل (سنجیدگی کے ساتھ): وہ نگوڑی کون سی بات ہے کہ جہاں پناہ کو اُس کے ظاہر کرنے میں تردد ہے؟ کیا کوئی سلطنت کا راز ہے جس کا اگلوں کی نصیحت کے مطابق عورتوں پر ظاہر کرنا مناسب نہیں؟

جہاں پناہ (ہنس کر): سلطنت کا کون سا راز تم سے چھپا ہے، جو اب میں کسی بات کو پردے میں رکھوں گا؟ اور تم جانتی ہو میں اس پُرانی نصیحت کا قائل بھی نہیں ہوں کہ کسی بات کو اپنی ہمدم و ہم راز بیوی سے چھپانا چاہیے۔

تاج محل: بے شک مجھے اقرار ہے کہ حضرت کسی گہرے سے گہرے راز کو بھی مجھ سے نہیں چھپاتے مگر ممکن ہے کہ آج کل کسی نے اُس پُرانی حکمت و نصیحت کو ایسے الفاظ میں بیان کیا ہو کہ اب دل میں یہ خیال پیدا ہوگیا ہو کہ عورت کا اعتبار نہ کرنا چاہیے۔

یہ کہتے وقت باوجود فطری سنجیدگی کے ارجمند بانو بیگم کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

جہاں پناہ: اب مجھے کوئی کیا بہکائے گا۔ اور سچ یہ ہے کہ اس پُرانی حکمت پر میں زندگی بھر کبھی عمل نہ کر سکوں گا اور نہ مجھے یہ نصیحت صحیح معلوم ہوتی ہے۔ انسان کی سچی اور سب سے زیادہ محرم راز اُس کی باوفا و ہمدم بیوی ہوتی ہے۔ اُس سے اپنی باتوں کو وہ چھپا ہی کیسے سکتا ہے؟ اور میری تو یہ حالت ہے کہ اگر اپنی باتوں کو تم سے چھپانے لگوں تو گھر میں بیٹھنا دشوار ہو جائے۔ بلکہ کیا عجب کہ سڑی ہو جاؤں۔

بادشاہ کا یہ کلمہ سنتے ہی بے اختیار ارجمند بانو بیگم کی زبان سے نکلا “خدا نہ کرے، نصیب دشمناں!” پھر کہنے لگیں: “اور میں بھی آپ کی اسی وضع اور انھیں مہربانیوں سے اکثر اپنے دل میں کہا کرتی ہوں کہ دنیا کی کسی بادشاہ بیگم کو ایسا سچا اور سچی محبت والا شوہر نہ نصیب ہوا ہوگا جیسا کہ خوش قسمتی سے مجھے نصیب ہوا ہے۔ تو پھر آپ ہی فرمائیں کہ اس وقت جو بات آپ کے دل میں ہے اُس کے ظاہر کرنے میں کس بات کا تردد ہے”۔

جہاں پناہ: یہ کہ تمھیں بد گمانی نہ ہو؟

تاج محل (سراپا حیرت بن کر): تو وہ بد گمانی کی بات ہے؟

جہاں پناہ: ہونا تو نہ چاہیے۔ مگر ممکن ہے کہ تم بد گمان ہو اور اسی وجہ سے مجھے اندیشہ ہے کہ خدا جانے تم اُسے منظور کرو گی یا نہیں؟

تاج محل: میری بد گمانی کا اندیشہ ہے اور پھر اس کی ضرورت بھی ہے کہ وہ بات مجھ سے کہی جائے۔ میں تو جانتی ہوں کہ ایسی بات کو مجھ سے نہ کہنا چاہیے۔

جہاں پناہ: یہ نہیں ہو سکتا۔ اول تو میں تم سے چھپا کے کوئی کام نہیں کرنا چاہتا۔ دوسرے وہ تو ایسا کام ہے کہ تمھارے ہی ہاتھ سے انجام پا سکتا ہے۔

تاج محل: اچھا تو آپ کہیں۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ بد گمان نہ ہوں گی۔

جہاں پناہ: بس میں یہی چاہتا تھا۔ تو اب سنو۔ جی چاہتاہے کہ دادا عرش آشیانی کی طرح ایک مینا بازار میں بھی قائم کروں اور اس کا سارا انتظام تمھارے ہاتھ سے ہو۔ تم ماشاء اللہ سے نہایت عقلمند اور میری سب سے بڑی مشیر سلطنت ہو۔ اس قسم کے بازار سے پردہ نشین عورتوں میں میل جول بڑھے گا، وہ دنیا اور اُس کے کاروبار سے فائدہ اُٹھائیں گی، ہند و مسلمان خاتونوں میں ربط و ضبط بڑھے گا اور پھر معزز بیویاں اس بازار سے فائدہ بھی بہت اُٹھائیں گی۔ بعض غریب گھرانوں کی عورتیں کیا عجب کہ اس بازار کے ذریعے سے دولت مند ہو جائیں۔پھر تمھیں بھی یہ بڑا فائدہ حاصل ہوگا کہ عام عورتوں کی وضع قطع مذاق و کردار سے خوب واقف ہو جاؤ گی جس کا تمھیں بے حد شوق ہے۔

تاج محل: بے شک مجھےشوق ہے اور عورتوں کے نفع کےلیے اس کو پسند بھی کرتی ہوں۔ مگر بہتر یہ ہوتا کہ یہ صرف زنانہ بازار ہوتا۔ دُکاندارنیں بھی عورتیں ہوتیں اور خریداری کرنے والی بھی عورتیں ہوتیں۔ عرش آشیانی کے زمانے کا مینا بازار مجھے پسند نہیں کہ پردے والی عورتوں میں بادشاہ اور اُن کے مصاحبین و اُمرا سب گھس پڑیں۔

جہاں پناہ: مگر حضرت عرش آشیانی نے اپنا مینا بازار بڑی مصلحت سے کھولا تھا۔ اگر خود وہ اور اُن کے ہمراہی اُس بازار میں جا کے خریداری نہ کرتے تو عورتوں کو اتنا فائدہ ہرگز نہ ہوتا اور عورتوں نے جس نفاست و سلیقہ شعاری سے اپنی دکانوں کو بادشاہ کے آنے کے شوق میں سنوارا اور آراستہ کیا تھا، یوں ہرگز نہ سنواریں گی۔

تاج محل: یہ سب فائدے ایک طرف اور یہ خرابی ایک طرف کہ عورتوں اور مردوں کے ملنے سے بدکاری بڑھے گی، صدہا فتنے پیدا ہوں گے۔ کوئی غیر مرد کسی کی جورو پر فریفتہ ہو کر اُس کے شوہر کا دشمن ہو جائے گا اور اُس کو اُس کے گھر سے نکالنا چاہے گا۔ کوئی عورت کسی غیر مرد کی شیفتہ ہو کر اپنے شوہر اور بچوں تک کے چھوڑنے پر آمادہ ہو جائے گی۔ ان باتوں سے جیسے جیسے فساد ہوں گے، وہ اُن ظاہری فائدوں سے بدرجہا زیادہ بڑھے ہوئے ہوں گے۔

جہاں پناہ: بیگم! تم نے برائیوں کی بہت ہی ناقابل برداشت تصویر میری آنکھوں کے سامنے بنا کے کھڑی کر دی لیکن جب میں دیکھتا ہوں کہ حضرت عرش آشیانی کے عہد میں اس بازار کی وجہ سے کوئی ایسی خرابی نہیں پیدا ہوئی تو اطمینان ہو جاتا ہے کہ ہمارے شریفوں اور امیروں کی بیویاں ایسی نفس پرست و بدکار نہیں ہیں جیسا تم انھیں بتاتی ہو۔

تاج محل: کون جانتا ہے کہ خرابی نہیں پیدا ہوئی۔ صدہا فساد ہوئے ہوں گے مگر ایسی باتوں کو شریف لوگ جہاں تک ممکن ہوتا ہے دباتے اور چھپاتے ہیں۔ اور اس مینا بازار کا سب سے بڑا فساد تو سب ہی جانتے ہیں کہ اُسی کی بدولت حضرت جنت مکانی کے دل میں مہر النسا کا شوق پیدا ہوا۔ اُن کا شوہر شیر افگن خان جان سے گیا اور وہ مہر النسا سے نور جہاں بیگم بن گئیں۔

جہاں پناہ (قہقہہ مار کے): یہ مینا بازار سے نہیں ہوا بلکہ جنت مکانی والد مرحوم کی رنگیلی طبیعت کا تقاضا تھا اور ایسی باتیں کسی نہ کسی طریقے سے سب ہی بادشاہوں کو پیش آ جاتی ہیں۔

تاج محل: ہاں پیش آ جاتی ہیں اور اس نئے مینا بازار سے آپ کو پیش آ جائیں تو۔

جہاں پناہ: دیکھو تم وعدہ کر چکی ہو کہ بد گمانی نہ کرو گی اور تمھیں مجھ سے ایسی بد گمانی ہرگز نہ کرنی چاہیے۔ تمھارے ہوتے ممکن نہیں کہ میں کسی عورت پر آنکھ ڈالوں۔ تم میرے دل و جان کی مالک ہو۔ سلطنت تمھارے اختیار میں ہے اور میرے بعد تمھارا ہی بیٹا ہندوستان کا تاجدار ہوگا۔

تاج محل: ایسی باتیں نہ کیجیے۔ میری زندگی آپ کے دم کے ساتھ ہے۔ خدا وہ دن نہ لائے کہ میں کسی بیٹے کا زمانہ دیکھوں۔ میری پانچوں وقت کی نماز کے بعد یہ دعا رہتی ہے کہ آپ کے سامنے مروں اور آپ کے ہاتھوں ٹھکانے لگوں۔

جہاں پناہ: تمھاری چاہے یہ تمنا ہو، مگر میری زندگی بغیرتمھارے بے مزہ ہو جائے گی۔ مجھے سلطنت کا لطف صرف تمھارے وجہ سے آتا ہے۔ اب ان باتوں کو چھوڑو جن کا خیال آنے سے دنیا بے کار اور جینا بے مزہ نظر آنے لگتا ہے اور خیر اگر تم مینا بازار کو نہیں پسند کرتیں تو میں اُس کے خیال سے باز آ جاتا ہوں۔

تاج محل (مُسکرا کے): میں فقط آپ کے چھیڑنے کے لیے کہتی تھی۔ ورنہ میرا تو یہ کام ہے کہ آپ کو جس چیز کا شوق ہو اُسے جس طرح بنے پورا کروں۔ جب اگلے دنوں جوانی میں آپ پر بد گمانی نہ ہوئی تو اب کیا ہوگی۔ اس مینا بازار کو شوق سے کھولیے، میں مانع نہیں ہوں۔

جہاں پناہ: مانع ہونا کیسا، میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرے عہد کے مینا بازار کو تم ہی قائم کرو۔ تمھاری ہی طرف سے اس کا اعلان ہو۔ تمھارے ہی حکم سے شہر کے باہر اُس کی عمارت بنے اور تم ہی اپنے ہاتھ سے اس کا افتتاح کرو۔

تاج محل: آپ کی خوشی کے لیے میں ان سب کاموں کے کرنےکو تیار ہوں۔ مگر مجھ سے وعدہ کیجیے کہ کسی عورت پر آپ بُری نگاہ نہ ڈالیں گے۔ شیطان انسان کے پاس ہی رہتا ہے اور ذرا بھی کمزوری پاتا ہے تو بہکا دیتا ہے۔ بازار کو سجا کے دلہن بنا دینا اور ہر قسم کی دلچسپی کا سامان پیدا کر دینا میرا کام ہے۔ مگر آپ کا یہ کام ہے کہ کسی خوبصورت عورت کو دیکھیں، قدم کو لغزش نہ ہو۔ یہ وعدہ میں فقط اپنے لیے نہیں لیتی، میں تو جیسی ہوں ویسی ہی رہوں گی اور کوئی آئے گی بھی تو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اس لیے کہ میرے دل میں بہت کم ہوسیں رہ گئی ہیں۔ میں یہ وعدہ آپ ہی کے بھلے کے لیے لیتی ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ جو کہا جاتا ہے کہ بادشاہ سے کسی عورت کو پردہ نہ کرنا چاہیے۔ کس اطمینان پر کہا جاتا ہے؟ اس اطمینان پر کہ بادشاہ ساری رعایا کا محافظ اور سب کی آبرو بچانے والا ہے۔ آپ اس بازار میں آئیں تو دل میں یہ خیال جما لیں کہ ان عورتوں میں جتنی بڑھیاں ہیں آپ کی مائیں ہیں، جوانیں آپ کی بہنیں ہیں اور کنواری لڑکیاں آپ کی بیٹیاں ہیں۔

جہاں پناہ: میں اپنے ملک کی تمام عورتوں کو ہمیشہ ایسا ہی سمجھا کیا اور اس مینا بازار میں تمھارے کہنے سے خاص طور پر اس کا خیال رکھوں گا۔

تاج محل: تو پھر اس مینا بازار کے بعد ساری رعایا میں آپ کا اعتبار اور بڑھ جائے گا۔

جہاں پناہ: یہ تو پھر میری خواہش کے مطابق تم مینا بازار قائم کرنے کو تیار ہو؟

تاج محل: دل و جان سے، اور مجھے یقین ہے کہ یہ بازار عورتوں کے لیے ایک بڑی بھاری نعمت ہوگا۔ اُن کو اس سے بہت فائدے پہنچیں گے۔

جہاں پناہ: تو پھر کل ہی اُس کی عمارت تعمیر کرنے کا حکم جاری کر دو۔ میں چاہتا ہوں کہ اس بازار کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے جاری ہو جائے اور دنیا میں ہمیشہ کے لیے تمھاری یہ یادگار قائم رہے۔ یہ عمارت مستقل طور پر اسی کام کے لیے محفوظ رہے اور ہر سال کسی مناسب موسم میں اس میں زنانہ بازار لگا کرے۔

تاج محل: میں بھی ہر سال اس کے لیے خاص اہتمام کیا کروں گی۔ لیکن یہ بازار اُسی وقت تک ہے جب تک آپ سے یا آپ کے کسی شہزادے یا امیر سے کوئی بے اعتدالی نہ ظاہر ہو۔ اس لیے کہ اگر اس سے کوئی خرابی پیدا ہوئی تو پھر میں اُسے اچھا نہ کہوں گی اور ہرگز نہ پسند کروں گی کہ دنیا میں کوئی بد اخلاقی کی چیز میری یادگار سمجھی جائے۔

جہاں پناہ: ان شاء اللہ کوئی خرابی نہ ہوگی اور جب میں خود احتیاط کروں گا اور نگرانی رکھوں گا تو کسی کی مجال نہیں کہ کسی عورت پر بُری نگاہ ڈالے۔

تاج محل: تو بہتر ہے۔ کل ہی میری طرف سے میر عمارت کو حکم دے دیجیے کہ اس عمارت کے لیے ایک اچھا اور مناسب نقشہ تیار کر کے میرے سامنے پیش کریں۔ اور اس کے بعد اتنی جلدی اس عمارت کو تیار کر کے کھڑا کر دیں کہ اب کی فصل بہار میں یہ بازار کھول دیا جائے۔

جہاں پناہ: میں بہت جلد اس عمارت کو تعمیر کراؤں گا اور اُس کا نقشہ تین ہی چار روز میں بن جائے گا۔

حضرت صاحب قران ثانی کے دل میں مینا بازار کا خیال اس طرح جم کے بیٹھ گیا تھا کہ رات بھر بار بار نیند اُچٹ جاتی اور جب آنکھ کھلتی اُسی کا خیال ہوتا اور صبح کو نماز سے فارغ ہوتے ہی جب تک ممتاز الزمانی نواب تاج محل صاحبہ کی طرف سے اس عمارت کی تعمیر اور بہت جلد اُس کے نقشے کی تیاری کا حکم جاری کرا لیا، باہر دربار میں نہیں تشریف لائے۔

برآمد ہوتے ہی امرائے دولت کو بُلوا کے ملکۂ زمانہ کے حکم سے آگاہ کیا اور میر عمارت کو بلا کے حکم فرمایا کہ دو ہی تین دن کے اندر نقشہ بنا کے محتشم الیہا کے ملاحظے میں پیش کر دیں۔ ساتھ ہی اس کا بھی اعلان کرا دیا کہ “اب کی موسم بہار میں نواب ممتاز محل صاحبہ شہر کے باہر ایک نہایت عالیشان مینا بازار کھولیں گی۔ تمام ہندو مسلمان امرا و معززین کی بیویوں کو اُس میں شریک ہونا چاہیے۔ چند ماہ پیشتر سےاس لیے اعلان کر دیا گیا کہ ملک کی تمام سلیقہ والی بیویاں اس بازار میں لانے کے لیے قیمتی جواہرات اور اپنی دستکاری کی نادر چیزیں تیار کر لیں اور دوسرے شہروں اور صوبوں کی جو خاتونیں آنا چاہیں وہ سفر کے لیے تیار ہو جائیں۔ اس بازار میں ملک کی ہنر والی عورتوں کو دولت حاصل کرنے کا بہت اچھا موقع ہے۔ اس لیے کہ مُنہ مانگے دام دیے جائیں گے۔ جس تاریخ بازار کھولا جائے گا، اُس سے بعد اطلاع دی جائے گی”۔

اس اعلان کے ہوتے ہی تمام گھروں میں ایک عجیب جوش و شوق پیدا ہو گیا اور ہر گھر میں اسی کا تذکرہ تھا۔ بہت سی عورتیں اپنے مذاق و شوق کے مطابق فروخت کرنے کی چیزیں تیار کرنے لگیں۔ امیر گھرانوں کی عورتیں اپنے وضع و لباس کے متعلق طرح طرح کی تراش خراش اور ایجادیں کرنے لگیں۔