مینا بازار/دسواں باب: طلاقِ بائن

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

دسواں باب

طلاقِ بائن


جمال خان اور جان سپار خان دربار سے واپس گئے تو گھر پہنچتے ہی جان سپار خان نے کہا: “اب تو حضرت جہاں پناہ کے ارشاد سے آپ کو اطمینان ہوگیا ہوگا۔

جمال خان: کیا کہوں؟ مجھے تو اطمینان نہیں ہوا۔ میری بیوی کی خوبصورتی ایسی ہے کہ میں اپنے سائے تک سے بھڑکتا ہوں اور آپ ہی فرمائیے کہ جس حسینہ و جمیلہ عورت پر فرماں روائے وقت کی نظر پڑ جائے، اُس کے شوہر کی کیا حالت ہوگی؟اُس کی زندگی ہمیشہ سُولی پر رہے گی۔ جہاں پناہ کو اس کی صورت اچھی نہیں لگی تھی تو اُسے بلایا ہی کیوں؟ اور اُس کی خوبصورتی کا تو خود حضرت نے اپنی زبان سے اقرار فرمایا۔ لہذا اول تو یہی میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی حسینہ بادشاہ کو پسند آ کر محل میں جائے اور اُن کے دستِ تصرف سے بچ کر پاکدامن و عفیفہ چلی آئے، اور فرض کیا کہ وہ اپنی آبرو بچا لائی، مگر اس کا کیا علاج کہ اب میں ہر وقت جہاں پناہ کی نظر میں کھٹکوں گا۔ جس پھول کو وہ توڑنا چاہتے ہیں، میں اُس کے درمیان میں ایک کانٹا رہوں گا اور وہ ہر وقت اس کانٹے کے توڑنے کی فکر میں رہیں گے۔ کیا آپ کو جنت مکانی جہانگیر بادشاہ اور مہر النسا بیگم کا قصہ نہیں یاد ہے جس کا شوہر بنگالے میں قتل کرا دیا گیا اور وہ مہر النسا سے نور جہاں بیگم بن گئیں۔ میری جورو کے محل میں جانے اور بادشاہ کے منظور نظر بننے کے بعد میرا حشر وہی مہر النسا بیگم کے شوہر شیر افگن خان کا سا ہوگا۔ بہر حال اب وہ میرے قابل نہیں رہی یا میں اُس کے قابل نہیں رہا۔ میں بادشاہ کا رقیب اور اُن کی منظور نظر عورت کا شوہر نہیں رہ سکتا۔

جان سپار خان: مجھے یہ آپ کے اوہام ہی اوہام معلوم ہوتے ہیں۔ ان وہموں میں پڑ کے اپنی اور اپنی پاک دامن و بے گناہ بیوی کی زندگی نہ خراب کیجیے۔

جمال خان: زندگی تو خراب ہو ہی چکی۔ اس سے زیادہ کیا خراب ہوگی؟ وہ بادشاہ کے پاس گئی، اُن کے وہاں تین چار روز رہی اور دامن عفت میں دھبا لگا کے واپس آئے گی۔ تمام امیروں میں، معزز لوگوں میں، سارے شہر والوں میں مشہور ہو چکا کہ وہ بادشاہ کو پسند آ گئی۔ اب اس کے بعد آئے گی اور میں اُسے رکھوں گا تو بجز دیوثی اور بے حیائی کے مجھے کیا نصیب ہوگا؟ اب میرا اور ایسی عورت کا نباہ نہیں ہو سکتا۔

جان سپار خان: تو آپ کو نہ حضرت کے فرمانے کا اعتبار ہے اور نہ اس کا کہ آپ کی بیوی نواب تاج محل صاحبہ کی مہمان تھیں اور انھیں کے پاس رہیں۔

جمال خان: ایسے بہلانے پُھسلانے سے میرے دل کو تسکین نہیں ہو سکتی۔ میرے دل میں انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے۔ اگر جہاں پناہ کے سوا اور کوئی ہوتا تو اس کی جان سے اپنی بے حرمتی کا انتقام لیتا۔ مگر اُن پر زور نہیں چل سکتا لہذا اب تو سارا انتقام اس بدکار عورت ہی سے لوں گا۔

جان سپار خان: اُس نیک اور پارسا بیوی کو بدکار نہ کہیے اور عقل سے کام لیجیے۔ مینا بازار میں اُسے خود آپ نے بھیجا۔ وہاں سے وہ کمال بے بسی کے ساتھ شاہی حکم سے کشاں کشاں بادشاہ وقت کے محل میں گئی۔ جہاں پناہ اطمینان دلاتے ہیں کہ محل میں وہ باعصمت و پاکدامن رہی اور اگر بدکاری کا ذرا بھی لوث ہوتا تو وہ نواب تاج محل سے نہ ملائی جاتی۔ ملکۂ زمانہ کے پاس رہنا ہی اس کی کافی دلیل ہے کہ وہاں وہ عزت آبرو سے رہی، اور اگر بادشاہ کے محل میں چلے جانے ہی میں بے حرمتی ہو گئی تو پھر دہلی کے جتنے اُمرا ہیں سب بے عزت و آبرو ہیں۔ کس کی بیویاں ایوان خسروی میں نہیں جاتیں؟

جمال خان: میں آپ کی دلیلوں کا جواب نہیں دے سکتا مگر آبرو کا معاملہ استدلال کی دنیا سے باہر ہے۔ میرا ان باتوں سے اطمینان نہیں ہو سکتا۔

جان سپار خان: اگر آبرو کا ایسا ہی خیال ہے تو پھر آپ کو دہلی میں نہ رہنا چاہیے۔ نوکری چھوڑ کے کسی گمنام مقام میں جا کے سکونت اختیار کیجیے۔

جمال خان: اس عورت سے انتقام لینے کے بعد ایسا ہی کروں گا۔ آپ زبردستی کو اُس کی حمایت کرتے ہیں۔ میں نے مانا کہ سب امیروں کی عورتیں محل میں جاتی ہیں مگر وہ اپنی غرض کے لیے خوشامد کرنے کو جاتی ہیں، اور اِس کو تو بادشاہ پسند کر کے اور سارے بازار میں سے منتخب کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔ ایسی عورت بھلا وہاں سے اپنی آبرو کو سلامت لے کر آ سکتی ہے؟ ہر گز نہیں۔ 

جان سپار خان: یہ بات آپ نے البتہ ایسی کہی جو ذرا لحاظ کے قابل ہے۔ مگر اس کے ساتھ جب اس کا خیال کیجیے کہ وہ بادشاہ بیگم ملکہ ممتاز الزمانی بیگم کی مہمان رہی تو بھلا کیسے کسی دل میں اس کا وہم بھی گذر سکتا ہے کہ وہ وہاں جا کے بے آبرو ہوئی؟ تاج محل صاحبہ اُس کی آبرو کی ہر وقت محافظ رہی ہوں گی۔

جمال خان: آپ کچھ کہیں میرے دل کو تسکین نہیں ہوتی۔

آخر جان سپار خان اپنی کوشش اور فہمائش میں عاجز آ کے اپنے گھر گئے اور جمال خان نے تنہا بیٹھ کے اپنی ضد اور جان سپار خان کی دلیلوں پر غور کرنا شروع کیا۔ اب وہ اپنے اُن دوست کی وکالت میں خود ہی اُن کی دلیلوں کو اپنے سامنے پیش کرتے مگر تسکین نہ ہوتی۔ ضدی دل قائل ہو جاتا مگر مانتا کسی طرح نہ تھا۔

دیر تک کی اندرونی بحثوں کے بعد انھوں نےآدمی بھیج کے شوکت آرا بیگم کو مینا بازار سے بُلوا بھیجا اور جیسے ہی وہ آ کے فنس سے اُتری، تنہائی میں بیٹھ کے پوچھا: “تم وہاں موجود تھیں، سچ سچ بتاؤ کہ تمھاری بہن سے بادشاہ سے کیا گفتگو ہوئی؟ اور بادشاہ نے کیا کہہ کے انھیں محل میں بُلا بھیجا؟

شوکت آرا: جہاں پناہ جیسے ہی آئے اُن کی صورت پر فریفتہ ہو گئے۔ انھوں نے اپنا زیور اُتار کے فروخت کے لیے میز پر رکھ دیا تھا۔ بادشاہ نے فرمائش کی کہ اسے پہن کے دکھاؤ۔ چنانچہ پردے کی آڑ میں جا کے انھوں نے سارا زیور پہنا اور سامنے آئیں۔ جہاں پناہ دیکھ کر خوش ہوئے اور پوچھا: تمھارے پاس بیچنے کے لیے اور کوئی چیز بھی ہے؟ انھوں نے ہیرے کی قطع کی ایک مصری کی ڈلی پیش کی اور ایک لاکھ روپیہ اُس کی قیمت بتائی۔ جہاں پناہ نے اُس کو غور سے دیکھا اور سمجھ گئے کہ مصری کی ڈلی ہے مگر دو لاکھ روپے اسی وقت دلوا دیے۔ ایک لاکھ اُس مصنوعی نگینے کی بابت اور ایک لاکھ زیور کو اُن کے جسم پر دیکھنے کی بابت۔

جمال خان: کیا جہاں پناہ کے سامنے اُن کے منہ پر نقاب نہ تھی؟

شوکت آرا: نہیں، وہ تو جانے کے دن سے عورتوں کے سامنے بھی مُنہ پر نقاب ڈالے رہیں مگر جہاں پناہ کے آنے کے دن تمام بیویوں نے جو مینا بازار میں تھیں زبردستی اُن کی نقاب چھین لی اور کہا یہ نہیں ہو سکتا کہ ساری عورتیں اور بازار والیاں تو بے نقاب ملیں اور تمھارے چہرے پر نقاب ہو۔ اس میں وہ بالکل مجبور تھیں۔

جمال خان: تو کیا بازار والیوں اور سیر کرنے والیوں میں سے کسی کے منہ پر نقاب نہ تھی؟

شوکت آرا: کسی کے منہ پر نہ تھی۔

جمال خان: پھر بادشاہ نے ان کو اپنے یہاں بلایا کیا کہہ کے؟

شوکت آرا: بادشاہ نے ان کی طرف جھک کےکچھ کہا اور چلے گئے اور ان کے جاتے ہی جمال آرا بیگم نے ۔۔۔۔۔

جمال خان: اب اس نالائق و بے ناموس عورت کو جمال آرا نہ کہو۔ اس کا اصلی نام لو۔

شوکت آرا: مگر بھائی! اس میں ان کا بال برابر قصور نہیں ہے۔ یوں چاہیں آپ خفا ہو لیں، خیر میں گلرخ بیگم ہی کی کہوں گی۔ انھوں نے مجھے سے آ کے کہا: بڑا غضب ہوگیا۔ بادشاہ مجھے اپنے محل میں اپنے ساتھ خاصہ پر بلا گئے ہیں۔ دم بھر میں فنس آتی ہوگی اور گھر میں سنیں گے تو خفا ہوں گے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ نہ جاؤں۔

جمال خان: میں پوچھتا ہوں وہ بے نقاب بادشاہ کے سامنے کیوں آئی؟

شوکت آرا: اُن کے اختیار سے باہر تھا اور نقاب ان کے پاس تھی ہی نہیں، تو کیا کرتیں؟

جمال خان: جس وقت نقاب چھینی گئی تھی سوار ہو کے یہاں چلی آتی۔

شوکت آرا: اول تو اس کا خیال نہ آیا اور آتا بھی تو ممکن نہ تھا۔ جہاں پناہ کی آمد آمد کی خبر سے اندر باہر کی تمام سڑکیں اور راستے بند تھے۔

جمال خان: جو کچھ ہو یہ بے آبرو عورت میرے کام کی نہیں رہی۔

شوکت آرا: بھائی! اس میں ان کا بالکل قصور نہیں ہے۔ ان کی ایسی نیک پارسا اور پاکدامن عورت چراغ لے کر ڈھونڈھیے تو بھی نہ ملے گی۔

جمال خان: تم تو ان کی سی کہا ہی چاہو اور تمھارے لیے اندیشہ ہی کیا ہے؟ گھر کے اندر بیٹھی رہوگی اور کوئی تمھارے منہ پر کہنے سے رہا۔ آبرو گئی تو میری اور منہ دکھانے کے قابل نہ رہا تو میں۔

شوکت آرا: جی ہاں، آپ تو کہتے ہیں کہ عورت کے لیے کوئی اندیشہ نہیں۔ وہ گھر میں آرام سے بیٹھی رہتی ہے اور میں کہتی ہوں عورت سے زیادہ کمبخت کوئی نہیں۔ انصاف اس کے لیے ہئی نہیں۔ کسی نے اسے دیکھ لیا اور وہ ناک کاٹنے کے قابل، کسی کو اس نے دیکھ لیا اور اس کی آنکھیں پھوڑ دالی جائیں۔ کسی سے ایک بات کر لی اور زبان کاٹ لی جائے۔ انھیں بہن گلرخ بیگم کے بارے میں مَیں پوچھتی ہوں کہ آخر وہ کیا کرتیں؟ نہ جاتیں تو بادشاہ ناراض ہو جاتے اور آپ کی اور ان کی زندگی عذاب میں پڑ جاتی، چلی گئیں تو اب چاہے وہ وہاں کیسی ہی آبرو سے رہی ہوں، آپ کے نزدیک بے آبرو ہو گئیں۔

جمال خان نے اس کا کچھ جواب دینے کی جگہ شوکت آرا کو جھڑک دیا اور منہ لپیٹ کے پڑ رہے مگر شوکت آرا سمجھانے اور قائل کرنے سے باز نہ آتی۔ اور تین دن تک یہ حالت رہی کہ اندر وہ اور باہر جان سپار خان بار بار آ کے انھیں سمجھاتے اور عاجز کر دیتے۔

تیسرے دن جان سپار خان سے اسی مسئلہ میں بحث ہو رہی تھی کہ گلرخ بیگم کی سواری پہنچی۔ کہار پہلے مینا بازار میں لے گئے تھے مگر وہاں ٹھہرنے کی جگہ وہ سیدھی گھر میں آ کے اُتریں۔ ان کی آمد سنتے ہی جمال خان ایک طیش اور غیظ و غضب کے ساتھ اندر جانے کو اُٹھے تو جان سپار خان نے روک کے کہا: “دیکھیے کوئی بے عقلی کا کام نہ کیجیے گا۔ آپ کے چہرے سے غصے کے آثار نمودار ہیں۔ اس وقت اگر آپ کے قدم کو ذرا بھی لغزش ہو گئی تو غضب ہو جائے گا۔ کوئی کارروائی بغیر مجھ سے پوچھے نہ کیجیے گا۔ اس کا بھی خیال رہے کہ یہ معاملہ ایسا نہیں ہے کہ گھر میں دب جائے۔ جہاں پناہ کو خبر ہو گئی تو سخت ناراض ہوں گے اور گھر میں بھی آپ کی زندگی خراب ہو جائے گی۔

جمال خان: اچھا میں وعدہ کرتا ہوں کہ کوئی نامناسب کارروائی نہ کروں گا۔

جان سپار خان: نامناسب! خدا جانے آپ کس بات کو مناسب جانتے ہیں اور کس بات کو نامناسب؟

جمال خان: اچھا کوئی ایسی بات نہ ہوگی جو آپ کو خلاف گذرے۔

جان سپار خان: اجی میرے خلاف ہوئی تو کیا اور نہ ہوئی تو کیا؟ خود آپ کے خلاف نہ ہو۔ میں بخدائے لایزال دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ آپ کی بیوی بالکل بے قصور ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی بھی آپ نے کی تو خلق اللہ میں ذلیل، بادشاہ کی نظر میں مجرم اور خدا کے یہاں گنہگار ہوں گے۔

یہ کہہ کے جان سپار خان اُٹھ کے چلے گئے اور جمال خان سُست و متفکر گھر میں داخل ہوئے۔ مگر بیوی کی صورت دیکھتے ہی ایک طعن آمیز کرخت لہجے میں کہا: “ہو آئیں؟”

گلرخ بیگم (آنکھیں نیچی کر کے): ہاں ہو آئی۔

جمال خان: خوب سیریں کیں! خوب مزے اڑائے!

گلرخ بیگم: جیسے مزے اڑائے اور سیریں کیں، خدا ہی خوب جانتا ہے۔

جمال خان: خدا تو جانتا ہی ہے، شاید تھوڑی ہی دیر میں حکم آتا ہوگا کہ میں تمھیں طلاق دے کے جلا وطن ہو جاؤں۔

گلرخ بیگم: طلاق دینے سے اچھا ہے کہ مجھے مار ڈالو تاکہ تمھارے دل کی بھڑاس تو نکل جائے۔

جمال خان: کرتا تو یہی، مگر آہ بے بس ہوں۔

گلرخ بیگم: کوئی تمھارا ہاتھ پکڑنے والا نہیں ہے اور میں تمھارے بس میں ہوں۔ جو چاہو شوق سے کرو۔

جمال خان: ہاتھ پکڑنے والے وہ ہیں جن کے پاس تین دن رہ کے آئی ہو، جن کے آگے کسی کا زور نہیں چل سکتا۔

گلرخ بیگم: میں وہاں کیسی اور کس حال میں رہی، اس کے گواہ خود جہاں پناہ ہیں اور ان کی ملکہ نواب ممتاز الزمانی بیگم ہیں۔

جمال خان: اچھا بتاؤ کہ تم وہاں کس حال میں رہیں؟ اور تین دن تک کیا کرتی رہیں؟

گلرخ بیگم: میرے کہنے کا تمھیں یقین آئے گا؟

جمال خان: مجھے یقین آئے یا نہ آئے تم تو اپنی سرگذشت بیان کرو، (غضب آلود ہنسی کے ساتھ) اور کچھ نہیں تو حُسن و عشق کی ایک داستان ہی سُن لوں گا۔

گلرخ بیگم: ہاں یہ داستان ہی ہے اور بہت درد بھری داستان۔ سنو! مینا بازار میں چلتے وقت جہاں پناہ نے چپکے سے کہا آج رات کا کھانا میرے ساتھ کھانا اور چلے گئے۔ میں دم بخود تھی اور سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کروں۔ شوکت آرا سے اپنی مصیبت بیان کی اور تاکید کر رہی تھی کہ تمھیں فوراً خبر کریں کہ شاہی کہار فنس لے کر آ گئے اور سوار ہونے کا تقاضا کرنے لگے۔ بے بس تھی اور کچھ زور نہ تھا، سوار ہو گئی۔ وہاں پہنچتے ہی سب سے پہلے مجھے سے ملکہ جہاں ممتاز الزمانی بیگم ملیں۔ اپنے دیوان خانے میں لے جا کر میرے تمام حالات پوچھے اور جہاں پناہ کے سامنے لے جا کے مجھے پیش کر دیا اور بیان کیا کہ میں کون ہوں۔ جہاں پناہ نے اپنے قریب بٹھا لیا اور ظاہر فرمایا کہ تمھاری باتیں مجھے اچھی معلوم ہوئیں، اس لیے تم کو بلا لیا کہ اطمینان سے باتیں کروں اور اپنی ملکہ سے ملاؤں۔ میں نے شکر گزاری کے ساتھ کہا کہ لونڈی اس قابل نہیں کہ حضور کی نظر اس پر پڑے۔ اس پر حضرت نے اطمینان دلایا اور کہا: میں نے کسی بُرے ارادے سے نہیں بلایا، کل تمھارے شوہر کو بھی بلا کے اُس کو اطمینان دلا دوں گا اور تم جب تک یہاں ہو نواب تاج محل کی مہمان ہو۔ مگر میرے دل کی بے قراری نہ جاتی تھی اور یہ تین دن اس حال میں گذرے کہ میں زندگی سے بیزار تھی اور بادشاہ و بادشاہ بیگم بار بار تسلی دیتے تھے۔ بس جو کچھ وہاں ہوا صرف یہ ہے کہ میں نے کھانا جہاں پناہ اور ملکہ کے ساتھ دسترخوان پر کھایا۔

جمال خان: اور وہ تو تم نے بیان ہی نہیں کیا جب زیور پہن کے بادشاہ کو اپنی چھب دکھائی تھی!

گلرخ بیگم: جب جہاں پناہ نے حکم دیا تو کیا کرتی؟ میری مجال تھی کہ ان کے حکم کے خلاف کرتی؟

جمال خان: مگر میرے حکم کے خلاف تم بادشاہ کے سامنے بے نقاب کیوں آئیں؟

گلرخ بیگم: اتنا میرا قصور بے شک ہے مگر اس میں بھی مجبور تھی۔ ساری بازار والیوں اور امرائے دربار کی بیویوں نے ضد کی کہ نقاب اتار ڈالو اور جب انھوں نے دیکھا کہ میں نہیں مانتی تو میری نقاب چھین کے غائب کر دی۔

جمال خان: جب نقاب چھن گئی تو تم سوار ہو کے گھر میں کیوں نہ چلی آئیں؟

گلرخ بیگم: اول تو گھبراہٹ میں مجھے اس کا خیال نہ آیا اور آتا بھی تو بیکار تھا۔ کیونکہ جہاں پناہ کی آمد آمد تھی، راستے رُکے ہوئے تھے۔ نہ کوئی مینا بازار میں آ سکتا تھا اور نہ کوئی باہر جا سکتا تھا۔

جمال خان: بہرحال تم نے اپنا منہ کالا کیا اور میری آبرو ڈبو دی۔

گلرخ بیگم: اگر اتنے وہاں چلے جانے میں منہ کالا ہوتا ہے اور آبرو ڈوب جاتی ہے تو اس کا الزام بادشاہ پر ہے اور یا تم پر، میرا کوئی قصور نہیں۔ مگر ہاں میں بھول گئی عورت چاہے کچھ کرے یا نہ کرے ہر طرح قصور وار ہے۔ وہ جو سُنا ہو کہ کر تو کر نہیں خدا کے غضب سے ڈر۔

جمال خان (بر افروختہ ہو کر): میں کیسے قصور وار ہوں؟

گلرخ بیگم: اس طرح کہ تمھیں نے مجھے مینا بازار میں بھیجا، میں اپنے شوق سے نہیں گئی۔

جمال خان: اور میں نے یہ بھی کہا تھا کہ بادشاہ کے محل میں چلی جاؤ؟

گلرخ بیگم: نہ تم نے کہا تھا اور نہ میں نے کسی کی خوشامد کی تھی کہ مجھے بادشاہ کے محل میں لے چلو۔ اگر تمھیں آبرو کا پاس تھا تو باہر مردانے میں موجود رہتے اور جب کہار فنس اٹھا کر لے چلے ہیں، مجھے ان سے چھین کے گھر لے آتے۔ مجھ میں اتنی طاقت کہاں تھی کہ بادشاہ کے حکم کے خلاف کرتی؟ اور جولوگ لیے جاتے تھے ان سے لڑتی؟

جمال خان: وہ چاہے میرا قصور ہو یا تمھارا، مگر تمھارے ہاتھوں مَیں دنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔

گلرخ بیگم: تو پھر تمھارے نزدیک اس کی جو سزا ہو کیوں نہیں دیتے؟

جمال خان: افسوس یہی تو امکان سے باہر ہے۔ مگر سنو بی صاحب! اب اس واقعے کے بعد سے میرا تمھارا نباہ نہیں ہو سکتا، نہ تم میری بیوی ہو اور نہ میں تمھارا میاں۔ اب میرے گھر میں تمھارا ٹھکانا نہیں ہے۔ اپنے میکے میں رہو، کسی دوست کے پاس رہو یا بادشاہ کے محل میں رہو، مجھ سے غرض نہیں۔ میں نے تمھیں طلاق دی اور تم سی بے آبرو عورت کو نجس کُوڑے کی طرح گھر سے نکال کے باہر پھینک دوں گا۔

گلرخ بیگم (آنسو بہا کے): میں تمھارے آگے التجا کرتی ہوں کہ طلاق دے کے مجھے رسوا نہ کرو۔ اس سے اچھا ہے کہ مجھے مار ڈالو۔

جمال خان: بادشاہ کی منظور نظر کو میں قتل نہیں کر سکتا۔ اس پر ہاتھ اٹھاؤں تو خود اپنی جان دوں۔ مگر تمھاری بدنامی دور کرنے کے لیے آئندہ میرا تمھار برتاؤ دوستانہ محبت اور باہمی لطف کا رہے گا اور ہم تم ایک دوسرے کو بہن بھائی جانیں گے۔

گلرخ بیگم: میں پھر ہاتھ جوڑ کے کہتی ہوں کہ مجھے طلاق نہ دو۔ طلاق کی بے عزتی مجھے کسی طور گوارا نہیں ہو سکتی۔

جمال خان: جو ہونا تھا ہو چکا، کہنا سننا بیکار ہے۔ میں نے تم کو طلاق دی، میں نے تم کو طلاق دی، میں نے تم کو طلاق دی۔ اب طلاق بائن ہو گئی جس کے بعد پھر میرا تمھار نکاح بھی نہیں ہو سکتا۔ اس وقت سے ہم تم بھائی بہن ہیں۔

گلرخ بیگم نے زار و قطار رونا شروع کیا، زیور اتار کے پھینک دیا، منہ پیٹا، بال نوچے اور جمال خان کے قدموں میں گر پڑی، مگر جمال خان نے ٹھوکر مار کے الگ کر دیا اور چلا کے کہا: “عورت نکل میرے گھر سے۔ مجھے تجھ سے کچھ سروکار نہیں۔ اب مجھ سے پردہ کر اور اس ناپاک صورت کو میری آنکھوں کے سامنے سے ہٹا”۔

شوکت آرا یہ تماشا دیکھ رہی تھی اور جمال خان کی بے رحمی و سنگدلی دیکھ کے حیران تھی۔ جب یہاں تک نوبت پہنچی تو گلرخ بیگم کو اٹھا کر ایک کونے میں ہٹا لے گئی۔ پھر اسی وقت کہار بلوا کے کہا: “بہن! اب اس سنگدل مرد کی منت خوشامد کرنا بیکار ہے کیونکہ اس کے اختیار ہی میں نہیں رہا کہ تمھارے حال پر مہربان ہو۔ اس وقت صبر کرو اور میرے گھر چلی چلو، وہاں چل کے ہم سوچیں گے کہ کیا کریں”۔

گلرخ کے لیے چارہ کار ہی کیا تھا۔ کہاروں کے آتے ہی سوار ہو کر شوکت آرا کے ساتھ اس کے گھر میں چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد جمال خان نے اس کا زیور اور جو انعام وغیرہ بادشاہ کی مرحمت سے اپنے ساتھ لائی تھی، سب گلرخ بیگم کے پاس بھجوا دیا اور کہلا بھیجا کہ “لو یہ حرام کاری کا انعام و معاوضہ بھی اپنے ہی پاس رکھو اور جو دو لاکھ کی رقم تم نے مینا بازار میں کمائی تھی وہ بھی بھیجے دیتا ہوں۔ یہ نہ کہنا کہ تمھاری بے شرمی کی دولت میں سے کچھ بھی میرے پاس ہے”۔