مینا بازار/تیسرا باب: اُس کی تعمیر و تزئین

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search


تیسرا باب

اُس کی تعمیر و تزئین


تیسرے ہی روز مینا بازار کی عمارت کا نقشہ ملکۂ زمانہ نواب ارجمند بانو بیگم کے ملاحظہ میں پیش ہوا۔ بادشاہ اور بادشاہ بیگم نے اُس پر خوب غور کیا۔ محل کی معزز و نفیس مزاج عورتوں اور بعض وزرا و امرا کی بیگموں کو بھی دکھا کے مشورہ لیا۔ اور ایک ہی ہفتہ کے اندر مناسب ترمیموں کے بعد وہ نقشہ میر عمارت کو واپس دیا گیا کہ اسی کے مناسب عالیشان عمارت بہت جلد تعمیر کرا دیں۔

اب حضرت جہاں پناہ کا معمول تھا کہ ہر ہفتہ میں دو تین بار بذات خود تشریف لے جا کے ملاحظہ فرماتے کہ عمارت کتنی بنی اور کس عجلت کے ساتھ تعمیر کا کام جاری ہے۔ محل کے اندر ہوتے تو اکثر تاج محل صاحبہ سے اسی مینا بازار کا تذکرہ رہتا۔ اُس کی آراستگی اور زیب و زینت کی چیزوں پر غور کیا جاتا۔

تقریباً تین مہینے میں عمارت مکمل ہو گئی اور ساتھ ہی اُس کی سجاوٹ بھی ہو گئی۔ ڈیوڑھی کی جگہ ایک بہت بڑا وسیع احاطہ رکھا گیا تھا جس کے اندر ہاتھی، گھوڑے، رتھیں، بہلیں اور ہر قسم کی سواریاں بہت آسانی سے جا سکیں۔ احاطے کے گردا گرد تقریباً سو سوا سو کوٹھریاں تھیں، جو اس مقصد سے بنائی گئی تھیں کہ اُن میں رتھیں اور گاڑیاں رکھی جائیں، بیل یا گھوڑے باندھے جائیں۔ داخل ہونے کے دروازے کے پاس اندر کی طرف فیل خانہ کے طور پر بہت بلند مکانات تھے تاکہ ان میں ہاتھی باندھے جائیں۔ غرض جو عالی مرتبہ شاہزادیاں اور بیگمیں آئیں ان کی سواریوں کے ٹھہرانے اور رکھنے کے لیے یہ احاطہ کافی تھا۔

اس کے بعد دوسری ڈیوڑھی تھی جس میں پردے کا انتظام تھا کہ ہر خاتون اُس میں داخل ہو کے آرام و اطمینان سے اُتر کے بازار کے اندر چلی جائے اور اس کے اُترنے کے بعد سواری بیرونی احاطے میں آ کے ٹھہرے۔

اس کے بعد بازار کا خاص دروازہ تھا جو نہایت ہی خوبصورت اور دلکش تھا۔ اس پر چابکدست کاریگروں نے بڑی خوبی سے بیل بوٹے بنائے تھے۔ خوب خوب رنگ آمیزیاں کی تھیں۔ جابجا سونے کا پانی پھیر کے اس قدر چمکا دیا تھا کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں دولت تیموریہ کا عروج و کمال دیکھ کے خیرہ ہونے لگتیں۔ اس دروازے میں داخل ہوتے ہی بازار ملتا جس پر نظر پڑتے ہی آنکھیں روشن ہو جاتیں۔ دو بڑی وسیع سڑکیں ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی چاروں طرف پھیلتی چلی گئی تھیں۔ چوراہے پر ایک وسیع میدان رکھا گیا تھا جس کے درمیان میں ایک نہایت ہی خوشنما و دلکش بُرج نُما کوشک تھی، اس کی چوٹی پر سنہرا کلس تھا اور اُس کے چاروں طرف چھوٹی چھوٹی کلس دار گنبدیوں کا سلسلہ چلا گیا تھا جن کے دائرے کے اندر مذکورہ درمیانی کلس مرکز کا کام دیتا اور چھوٹے کلسوں میں وہ ایسا نظر آتا تھا کہ گویا ماہتاب نے تاروں کو پاس سے ہٹا کے گردا گرد حلقہ میں قائم کر دیا ہے۔

اس کوشک میں بوٹے دار اطلس کے فرش پر سونے چاندی کے تخت اور پلنگ قرینے سے آراستہ تھے۔ تختوں پر اعلیٰ درجے کے ایرانی اور ترکی قالین بچھے تھے اور صدر میں زربفت کی مسند اور تکیے تھے۔ یہ مقام خاص ممتاز محل اور اُن کے دربار کی خاتونوں کے لیے مخصوص تھا۔

چاروں طرف جو سڑکیں گئی تھیں اُن میں ہر جانب ڈیڑھ ڈیڑھ سو دکانیں نہایت زیبائش سے آراستہ کی گئی تھیں۔ اس طرح ہر سڑک پر دونوں طرف ملا کے تین سو دکانیں اور سارے بازار میں کل بارہ سو دکانیں تھیں۔ دُکانوں کو بیل بوٹوں اور مینا کاری کی صنعتوں سے شداد کی جنت بنا دیا گیا تھا اور اُن کی پیشانی پر اِس سرے سے اُس سرے تک ایک چوڑی سنہری بیل چلی گئی تھی جو عجب بہار دکھاتی اور جس کی نظر پڑتی محو حیرت ہو جاتا۔ تمام دکانوں کے بازؤں پر گوٹے کے ہار لٹک رہے تھے اور کپڑے کے کٹاؤ سے کام لے کر نہایت شگفتہ خوش رنگ سدا بہار پھولوں سے ان کا سارا بیرونی رُخ آراستہ کر دیا گیا تھا۔ ان کے اندر دو جانب اطلس کے پردے لٹک رہے تھے جن میں عورتوں کے مذاق کے مطابق زربفت کی بیلوں اور سنہرے لچکوں کا حاشیہ تھا اور ان کے درمیان میں نقرۂ چٹکی کا جال بنا دیا گیا تھا۔ اور چونکہ سب دُکانیں دوہری تھیں، لہذا پشت کی طرف تین تین محرابیں تھیں جن کے چاروں طرف تو وہی کام تھا جو دونوں طرف تھا۔ مگر محرابوں کی پیشانیاں کپڑے کے سدا بہار پھولوں سے آراستہ تھیں جن کے نیچے مقیش کی جھالریں لٹک رہی تھیں اور دروں میں منقش چلمنیں پڑی ہوئی تھیں۔ دکانوں کے پشت کے کمروں کی زینت میں سادگی سے کام لیا گیاتھا۔ ان کمروں کے پیچھے مختصر مکانات تھے تاکہ جو بیویاں آئیں اپنے گھروں کی طرح آرام سے رہیں اور پشت کے کمرے اور ان کے متعلق مکانوں میں آزادی سے اٹھیں بیٹھیں۔

جب یہ بازار سج کے تیار ہوگیا تو ممتاز الزمانی بیگم مع اپنی خواصوں اور محل کی عورتو ں کے بڑے دھوم دھام سے اُس کے دیکھنے کو آئیں۔ پہلے اُس کوشک کو دیکھا جو خاص اُن کے لیے تھی، پھر ہر ہر دکان اور مکان کو جا کے اندر سے دیکھا اور بہت خوش ہوئیں۔ جہاں پناہ بھی اُسی وقت تشریف لائے اور ملاحظہ کے بعد بیگم سے کہا: “تم نے اس بازار کو دیکھا؟ اگر کسی چیز کی کمی ہو تو بتا دو”۔

تاج محل: جو چیز آپ کے اہتمام سے بنے بھلا اُس میں کوئی کمی رہ سکتی ہے؟ واقعی بہت خوب بنا ہے اور تعمیر سے زیادہ خوبی اس کی آراستگی و زینت میں ہے۔

جہاں پناہ: جہاں تک بنا عورتوں کے مذاق کا خیال رکھا گیا ہے۔

تاج محل: عمارت کے بنانے اور سجانے میں جو کمال خدا نے آپ کو دیا ہے کسی بادشاہ کو نہیں دیا تھا۔ میں نے سُنا ہے ولایت میں اور نیز اور بہت سے ملکوں میں بازار اُوپر سے پٹے ہوتے ہیں۔ اگر یہ چاروں سڑکیں وہاں کی طرح پاٹ دی جائیں اور ساری چھت میں نقش و نگار بنا دیے جائیں تو کیسا ہے؟

جہاں پناہ: پٹے ہوئے بازار ان ملکوں میں اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ برف باری اور برسات کی کیچڑ سے محفوظ رہیں۔ پھر وہاں سردی ایسی ہوتی ہے کہ ٹھنڈی ہوا سے بچنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان میں اگر ایسا بازار بنایا جائے تو ہوا کے رُکنے سے گھٹن ہو جائے گی اور پھر روشنی بھی کم رہے گی۔ روشندانوں کے رکھنےپر بھی اتنی روشنی نہ ہوگی کہ ہر چیز اپنی اصلی حالت میں نظر آ سکے۔ اور چونکہ یہاں زیادہ تر جواہرات کی خرید و فروخت منظور ہے اس لیے روشنی کی زیادہ ضرورت ہے۔ ہمارے یہاں نہ برف باری کا اندیشہ ہے اور نہ بہار کے موسم میں بارش کا خیال۔ اس لیے یہی اچھا معلوم ہوتا ہے کہ کھلا بازار رہے جس میں ہوا کے جھونکے چلتے ہوں۔ لیکن اگر تمھیں وہی پسند ہے تو میں حکم دیے دیتا ہوں کہ چاروں سڑکوں کی چھتیں پٹوا دی جائیں۔

تاج محل: نہیں میں آپ کے بتانے سے سمجھ گئی۔ واقعی اگر چھتیں پاٹی گئیں تو لوگوں کو تکلیف ہوگی اور اندھیرا ہو جانے سے جو زیب و زینت کا سامان کیا گیا ہے ماند نظر آئے گا۔ مگر ان باتوں سے مجھے دو باتوں کا اور خیال آیا۔ اول تو یہاں کوئی حوض نہیں ہے، حالانکہ بہت سے حوٖضوں کی ضرورت ہے۔ جو لوگ یہاں آ کے رہیں گے پانی کہاں سے لائیں گے؟ اور بہشتیوں کے دور سے لانے میں پورا مطلب نہ نکلے گا۔ دوسرے یہ کہ جو عورتیں یہاں آ کے ٹھہریں اور رہیں گی اُن کی دلچسپی اور تفریح کے لیے ایک گلباغ بھی بنا دیا جائے تاکہ مختلف اوقات میں وہاں جا کے بیٹھیں اور ملیں جلیں۔ آپ کا جو مقصد ہے کہ عورتوں میں میل جول بڑھے وہ ایک پُر فضا باغ ہی سے پورا ہو سکتا ہے۔

جہاں پناہ: بے شک دونوں باتیں بہت ضروری ہیں۔ تو چلو ہر طرف چکر لگا کر غور کروں کہ حوض کہاں کہاں بنائے جائیں اور باغ کس جگہ ہو۔

اس کے بعد بادشاہ اور تاج محل درمیان والی کوشک کے پاس آئے اور جہاں پناہ نے چاروں طرف نظر دوڑا کے کہا: “اس کوشک کے گرد میدان کافی ہے اور سڑکیں بھی چوڑی ہیں۔ لہذا میری رائے میں کوشک کے گردا گرد ایک گول حلقہ چار ہاتھ چوڑی خوبصورت نہر کا بنا دیا جائے اور چاروں طرف ہر سڑک کے مقابل نازک اور خوبصورت پل تعمیر کر دیے جائیں۔ حوض کے کنارے کنارے دونوں جانب مصنوعی پھولوں کے گلدستے رکھ دیے جائیں اور پلوں کے دونوں طرف نہایت آبدار برنجی کٹہرے ہوں۔ اسی طرح چاروں سڑکوں کے بیچ میں بھی سو سو قدم کے فاصلے پر مُدوّر حوض جن کا قطر دو گز سے زیادہ نہ ہو سنگ مرمر کے بنا دیے جائیں اور اُن کے اوپر خوبصورت اور نفیس بُرج قائم کر دیے جائیں۔

تاج محل: ایسا ہوا تو کیا کہنا۔ بازار کی رونق دوبالا ہو جائے گی۔ یہ کوشک کے گرد والا حوض اور اس کے پُل عجب شان دکھائیں گے۔ پھر سڑکوں کے درمیان میں جو حوضوں کے بُرجوں کا سلسلہ قائم ہوگا، بازار میں نہایت اعلیٰ درجہ کا لطف پیدا کر دے گا۔

جہاں پناہ: مگر باغ کا معاملہ دشوار ہے۔ اول تو اس کا جلدی تیار ہو جانا مشکل ہے۔ دوسرے اس عمارت کے تعمیر ہونے سے پہلے اس کا خیال نہیں آیا۔ تاہم تمھاری خوشی کے لیے میں یہ کروں گا کہ چاروں سڑکوں میں ہر ایک سے دوسری تک جو مثلث میدان چھوٹا ہے اُس میں زمین کو مسطح کرا کے ہری دوب لگا دوں گا، تاکہ پُر فضا مرغزار بن جائے۔ جہاں جہاں بن پڑے پھولوں کے درخت بھی لگا دیے جائیں۔ جابجا اُس میں حوض بنا دیے جائیں جن میں فوارے چھوٹا کریں۔ اس طرح چار طرف چار پُر فضا سبزہ زار ہوں گے جو بہت اچھی تفرج گاہ کا کام دیں گے۔ ان میں بیٹھنے کے لیے متعدد وسیع چبوترے بنوا کے ان پر قالینوں کا فرش بچھوا دوں گا تاکہ وہاں عورتیں سیر کی غرض سے آ کے ایک دوسرے سے ملیں، باہم ربط و ضبط پیدا کریں۔

تاج محل: یہ باغ سے اچھا رہے گا۔ اور عورتیں اس کی سیر میں باغ سے زیادہ خوش ہوں گی مگر چار مرغزاروں کے مَیں خلاف ہوں۔ اس لیے کہ اُن کی وجہ سے صحبت منتشر ہو جائے گی اور میں چاہتی ہوں کہ سب ایک ہی جگہ جمع ہوں۔

جہاں پناہ: ایک ہی سہی مگر اس سے باغ کی عمارت کا نقشہ کانا رہے گا۔ کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ چار مرغزاروں کو چار گروہوں کی عورتوں میں تقسیم کر دیا جائے؟ دو مسلمان بیگموں کے لیے ہوں اور دو ہندو خاتونوں کے لیے۔ اور ہر ایک کی دو سیر گاہوں میں سے ایک معزز عورتوں کے لیے ہو اور ایک عام عورتوں کے لیے۔

تاج محل: اس تفریق کے میں خلاف ہوں۔ میرا خیال ہے کہ ہندو مسلمان اور ادنیٰ اعلیٰ کا امتیاز نہ رہے۔ ہندو عورتیں مسلمان عورتوں کے پاس اور غریب عورتیں امیر زادیوں کے پہلو میں بیٹھیں۔ یہ آپ کا دربار نہیں ہے بلکہ عام لوگوں کی محفل ہے جس میں کوئی اختلاف و امتیاز نہ ہونا چاہیے۔ تاکہ سب ایک دوسرے سے مانوس ہوں اور یہاں سے جاتے وقت باہمی محبت و ہمدردی کا جوش دل میں لے کے جائیں۔

جہاں پناہ: بہتر۔ ایک ہی تفرج گاہ رکھی جائے گی۔

تاج محل: اور میں روز دو گھڑی دن رہے خود اس میں آ کے بیٹھوں گی اور ہندو مسلمان بیویوں کی ان کے مذاق کے مطابق ضیافت کیا کروں گی، ادنیٰ و اعلیٰ سب سے ملوں گی۔ ایک ایک کے پاس جا کے اُس کی مزاج پُرسی کروں گی اور سب کو باہمی محبت کا سبق دوں گی۔

جہاں پناہ: اگر تمھارا یہ ارادہ ہے تو تمھارا یہ اخلاقی مدرسہ ملک کے لیے بہت ہی مفید ثابت ہوگا۔

اس بازار کی جوا بھی سنسان پڑا تھا خوب سیر کر کے اور ہر ہر چیز پر غور کر کے جہاں پناہ اور بادشاہ بیگم سوار ہو کر اپنے محل میں آئے اور جو امور طے ہوئے تھے اُن کا اُسی وقت حکم جاری کر دیا گیا۔ اور اس تاکید کے ساتھ کہ زیادہ سے زیادہ ایک مہینے کے اندر حوض، اُن کے فوارے، پل، حوضوں کے بُرج اور مرغزار تیار ہو جائیں۔ کثرت سے مدد لگا دی جائے تاکہ سب کام اس مدت سے پہلے ہی انجام پا جائیں۔

ساتھ ہی اعلان کر دیا گیا کہ آج سے ڈیڑھ ماہ بعد عہد شاہجہانی کا مینا بازار کھل جائے گا۔ اسی اعلان میں اُس کے تفصیلی مراتب بیان کر دیے گئے اور ہر ادنیٰ و اعلیٰ کو امید دلائی گئی کہ ملکۂ زمانہ تاج محل ممتاز الزمانی نواب ارجمند بانو بیگم خاص اپنے ہاتھ سے اس بازار کا افتتاح کریں گی اور تمام اعلیٰ و ادنیٰ عورتیں جو شریک ہوں گی اُن سے روزانہ ملیں گی اور اپنی شفقتوں سے سرفراز فرمائیں گی۔ ہرکارے دُور دُور کے شہروں میں اس اعلان کے ساتھ دوڑا دیے گئے کہ شہری و دیہاتی سب کو اس شاہی بازار میں عزت و مساوات سے جگہ دی جائے گی اور غریب بیویوں کی امیر زادیوں سے زیادہ خاطر داشت کی جائے گی۔ اعلان کو پندرہ بیس ہی روز گذرے ہوں گے کہ ہزارہا رتھیں، محملیں، سکھ پالیں اور فنسیں دھوم دھام اور کر و فر سے دہلی کی طرف آنے لگیں اور دولت مغلیہ کے دار السلطنت میں عورتوں کا اتنا مجمع ہوگیا کہ کبھی نہیں دیکھا گیا تھا اور نہ تاریخ میں سُنا گیا تھا۔