مینا بازار/تیرھواں باب: لائے اس بُت کو التجا کر کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search


تیرھواں باب

لائے اس بُت کو التجا کر کے


رات کو نواب تاج محل گلرخ بیگم کو اپنے ہمراہ جہاں پناہ کے ساتھ کھانا کھانے کے لیے دسترخوان پر لائیں تو زیادہ عزت و خاطرداشت کے ساتھ لائیں۔ وہ خموشی کے ساتھ ایک کونے پر بیٹھ گئی۔ ملول و مضمحل دیکھ کر جہاں پناہ نے پوچھا: “کہو، اب مزاج کیسا ہے؟” اس کے جواب میں بعوض گلرخ بیگم کے نواب تاج محل نے یہ دیا کہ “مزاج تو اچھا ہے۔ مگر اپنے برائے نام شوہر کے لیے نہایت ملول ہیں”۔

جہاں پناہ: میری سمجھ میں نہیں آتا کہ انھیں اُس نالائق کے ساتھ ہمدردی کیوں ہے؟ اوراب تو وہ برائے نام بھی ان کا شوہر نہیں ہو سکتا۔

گلرخ بیگم: جہاں پناہ! چاہے ہو سکے یا نہ ہو سکے مگر میں زندگی بھر اسی کے نام پر جیوں گی۔

جہاں پناہ: آخر کیوں؟ وہ تمھارا شوہر ہونے کے قابل نہ تھا۔ تمھارے لیے اس سے اچھا شوہر چاہیے۔

گلرخ بیگم: حضرت! مجھ سے تو ایک مرد کے بعد دوسرے کو صورت نہ دکھائی جائے گی۔

جہاں پناہ: یہ بالکل خلاف شرع ہے اور حاکم شرع کا فرض ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو کسی دوسرے شوہر کے ساتھ تمھارا عقد کر دے۔ اور (مسکرا کے) دوسرے کو صورت نہ دکھانے کو جو کہتی ہو تو تم مجھی کو اپنی صورت دکھا چکیں۔

گلرخ بیگم (بے باکی سے): مگر جہاں پناہ معاف فرمائیں تو عرض کروں اسی کا وبال بھگت رہی ہوں۔

جہاں پناہ (ہنس کر) :تم اگر چاہو تو یہ وبال دم بھر میں دور ہو جائے۔

گلرخ بیگم: حضرت ہی ارشاد فرمائیں کہ میں اس وبال سے کس طرح بچ سکتی ہوں؟

جہاں پناہ: اس طرح کہ جس دوسرے کو منہ دکھایا ہے اُسی کی ہو جاؤ۔

بادشاہ کے اس فقرے نے گلرخ بیگم پر عجب اثر کیا۔ وہ حیران تھی اور گھبرا گھبرا کے کبھی جہاں پناہ کی صورت دیکھتی جس پر مسکراہٹ نمایاں تھی اور کبھی نواب ممتاز الزمانی بیگم کی جس پر قیامت کی متانت برس رہی تھی، اور آخر ایک ٹھنڈی سانس لے کے بولی: “لونڈی کی ایسی قسمت کہاں؟”

جہاں پناہ: یہ تم بخوبی جانتی ہو کہ جمال خان سے تم سے دوبارہ واسطہ نہیں ہو سکتا۔ وہ زندہ رہا بھی تو تمھارا نہیں ہو سکتا اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا سزائے موت سے بچنا فقط تمھارے اختیار میں ہے۔

گلرخ بیگم (حیرت سے): میرے اختیار میں! کیا میں شرع کے حکم کو ٹال سکتی ہوں؟

جہاں پناہ: شرع کے فیصلے کو تو نہیں بدل سکتیں مگر میرے حکم کو بدل سکتی ہو۔ مجھے معاف کرنے کا حق حاصل ہے اور یہ میرا حق تمھارے اختیار میں ہے۔

یہ سن کر گلرخ بیگم خاموش ہو گئی اور دیر تک تکلیف دہ گومگو کے عالم میں رہ کر بولی: “اس کا جواب حضرت ظل سبحانی کو شاید ملکۂ عالم کی زبان سے زیادہ اچھا ملے گا”۔

جہاں پناہ: تو جواب کی کچھ جلدی بھی نہیں ہے۔ ملکۂ زمانہ سے تم اطمینان کے ساتھ مشورہ کر لو۔ ان سے دریافت کر کے اور خوب اچھی طرح فیصلہ کر کے کل ناشتے پر مجھے جواب دینا۔ جمال خان مجھ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہے۔ کل کے دربار میں اس کا فیصلہ ہوگا اور وہ کیا ہوگا، یہ تمھارے جواب پر موقوف ہے۔

گلرخ بیگم بجز خاموشی اور سر جھکا لینے کے اس کا کچھ جواب نہ دے سکی اور جہاں پناہ بھی خاموش ہو رہے۔ کھانے کے بعد جب گلرخ بیگم اٹھ کر بادشاہ بیگم کے دیوان خانے میں آئی تو نواب تاج محل بھی اس کے ساتھ تھیں۔ یہاں تنہائی میں موقع پا کر گلرخ بیگم نے کہا: “ملکۂ عالم! آپ اس وقت کچھ نہ بولیں۔ میں سمجھتی تھی کہ میری کچھ مدد کریں گی”۔

تاج محل: مجھ سے بادشاہ سے اس بارے میں گفتگو ہو چکی ہے۔ وہ تم کو اپنی بیوی بنانا چاہتے ہیں اور مجھ سے مُصِر ہیں کہ تمھیں اس پر راضی کروں۔ میری غیرت اس کو کسی طرح گوارا نہیں کر سکتی، اسی سبب سے تم نے دیکھا کہ میں خاموش تھی اور شاید جہاں پناہ کو دل میں اس کا ملال بھی ہوا ہو مگر تم خوب جانتی ہو کہ میں مجبور ہوں۔ کوئی عورت اس کو گوارا نہ کرے گی کہ اس کا شوہر دوسرا نکاح کرے لیکن جہاں پناہ ہم سب کے مالک ہیں۔ جو چاہیں کریں، کوئی دم نہیں مار سکتا۔ میری زندگی ہمیشہ اس میں کٹی کہ حضرت کی جو خوشی ہو اس کو پورا کروں۔ یہ بھی جانتی اور دیکھتی ہوں کہ شرع نے انھیں چار بیویاں اور بہت سی حرمیں رکھنے کی اجازت دی ہے جس سے ظاہر ہے کہ خدا نے بھی عورت کی خوشی اور خواہش کے خلاف فیصلہ کر دیا ہے۔ اسی بات کو سوچ کر مجھے ایسے معاملات میں بادشاہ سے انکار کرنے کا حق نہیں ہے۔ پھر جہاں پناہ کو ہمیشہ دیکھتی رہی کہ اپنے ان افعال میں کبھی میری دل آزاری نہیں کرتے اور میرے ملکۂ عالم اور خاص بیوی ہونے کے حقوق کی پوری نگہداشت فرماتے ہیں بلکہ ایسے امور میں ہمیشہ مجھ سے اجازت لے لیا کرتے ہیں۔ اور میں بھی یہ دیکھ کر کہ انھیں ایسا حق حاصل ہے، بجائے مزاحمت کے ان کی رضامندی کی جویا رہتی ہوں۔ لہذا میرا خوشی سے مشورہ ہے کہ تم اس کو ضرور قبول کر لو۔ مجھے کسی اور عورت کے مقابل تم پر زیادہ اطمینان ہے کہ میری خوشیوں کا لحاظ رکھو گی اور میری دوست بنی رہوگی۔ دوسرے محلوں کی طرح میں تمھیں کسی محل سرا میں نہ بھیجوں گی بلکہ اپنے پاس اور خاص اپنےمحل میں رکھوں گی۔ اسی قدر نہیں، تم دیکھتی ہو کہ میرا سن زیادہ آ چکا لہذا مجھے ہر وقت بادشاہ کے پاس رہنے کی ہوس بھی نہیں رہی اور تم سے امید ہے کہ ہمیشہ میری طرفدار اور خیرخواہ رہوگی۔

گلرخ بیگم: جہاں پناہ کی طرح حضور نے بھی میرا درجہ بہت بڑھا دیا مگر میرے دل کو تسلی دینے کی تو کوئی تدبیر کیجیے۔ نہ میرے دل سے اس ذلت کا بار اٹھے گا کہ جس کے نکاح میں تھی اس نے طلاق دے دی اور ذلیل کر کے گھر سےنکال دیا اور نہ کبھی لونڈی بننے کے بعد جہاں پناہ کے سامنے آنکھیں اٹھائی جائیں گی اس خیال سے کہ جیسی اچھوتی معشوقہ کو بادشاہ کے پہلو میں ہونا چاہیے ویسی میں نہیں ہوں۔

تاج محل: اس سے اچھی تدبیر تمھاری تسلی کی کیا ہو سکتی ہے کہ حضرت ظل سبحانی کی محبوبہ بنو گی اور پھر اس کے ساتھ میری دوست۔ رہی تمھاری ندامت تو یہ بالکل بے اصل ہے۔ شرع میں جو کنواری بیوی کا درجہ اور حق ہے وہی مطلقہ یا کسی کی چھوڑی ہوئی بیوی کا۔ اور مردوں کو تو ان باتوں کا خیال ہی نہیں ہوتا، وہ تو فقط صورت شکل اور سلیقے اور تہذیب کو دیکھتے ہیں۔ میری پھوپھی نور جہاں بیگم ہی کو دیکھو، دوسرے کی جورو تھیں بادشاہ بیگم بن گئیں اور بادشاہ کو ایسی عزیز تھیں کہ کوئی نہ ہوگی۔

گلرخ بیگم: ایسی قسمت میں کہاں سے لاؤں گی؟ مجھے تو یہ نظر آتا ہے کہ جہاں پناہ کو اس وقت میری صورت پسند آ گئی ہے، چار روز کے بعد جب میری صحبت سے جی بھرےگا نفرت کرنے لگیں گے اور ایسا ہوا تو مجھے اس کا طلاق سے بھی زیادہ صدمہ ہوگا۔

تاج محل: جہاں پناہ اس طبیعت کے آدمی نہیں ہیں۔ ان سے کبھی کسی کو صدمہ نہیں پہنچا اور میں وعدہ کرتی ہوں کہ ہمیشہ تمھاری دلداری و دلدہی کرتی رہوں گی۔ اس کے بعد یہ بھی خیال کر لو کہ اگر تم نے بادشاہ کی خوشی کر دی تو وہ بھی شاید تمھارے نالائق و مجرم شوہر کا قصور معاف کر دیں اور نہ قبول کیا تو انھیں جمال خان پر اور زیادہ غصہ آئے گا۔

گلرخ بیگم: اور میں نے منظور کر لیا تو یہ کتنی بڑی قیامت کی بات ہوگی کہ میں عیش و آرام سے ہوں گی اور وہ دل ہی دل میں کُڑھا کریں گے۔

تاج محل: یہی تو ہونا چاہیے کہ تم اپنے صبر کا پھل پاؤ اور وہ اپنے ظلم کا بدلہ پائیں۔

گلرخ بیگم: مگر خدا جانتا ہے کہ ان پر ظلم ہونا مجھے نہیں گوارا ہے۔ اگر میں نے اس کو قبول کر بھی لیا تو وہ فقط ان کی جان بچانے کے لیے ہوگا۔

تاج محل: کسی غرض سے ہو مگر حضرت جہاں پناہ کی خوشی ضرور پوری ہونی چاہیے۔

اب گویا گلرخ بیگم نے بادشاہ کی منکوحہ بننا دل میں گوارا کر لیا تھا مگر رات بھر اسی اُدھیڑ بُن میں رہی۔ کسی طرح نیند نہ پڑتی، آنکھ لگتی اور فوراً چونک پڑتی۔ دل میں کہتی یہ بڑا نازک معاملہ ہے۔ بادشاہوں کی بیوی بننے کے لیے خاص لیاقت اور بڑا سلیقہ ہونا چاہیے۔ ہر وقت سولی پر جان رہے گی۔ کوئی بدتمیزی کی حرکت ہوئی اور ہمیشہ کے لیے گئی گذری ہوئی۔ کوئی خلاف تہذیب بات زبان سے نکلی اور جان کے لالے پڑ گئے۔ پھر اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ اگر بادشاہ خوش رہے تو دولت و حکومت لونڈیاں ہیں۔ میرا دل کسی طرح اس پر نہیں جمتا۔ خیال کرنے سے بھی دل دھڑکنے لگتا ہے۔ مگر میں نے نہ مانا تو میرے بے وفا شوہر کی جان نہ بچے گی۔ افسوس اپنی ناسمجھی سے انھوں نے میرے اور اپنے لیے کیسی مصیبت پیدا کر دی؟ اور ان کے مارے جانے کے بعد بھی یہ مشکل ہے کہ میں بادشاہ کے محل میں داخل ہونے سے بچ جاؤں۔

صبح ہوتے ہی نوابـ تاج محل نے اسے سمجھایا کہ اب جہاں پناہ کے سامنے چل کے بلا تامل قبول کر لو۔ یہ تمھاری مہلت کی آخری گھڑی ہے۔ تم نے انکار کیا اور جانو کہ جمال خان ہاتھی کے پاؤں کے نیچے کچلوا ڈالا گیا۔ اس کی زندگی چاہتی ہو تو قبول کرو۔

گلرخ بیگم: حضور تو فرماتی تھیں کہ خود جمال خان نے بادشاہ کے سامنے کچھ عرض معروض کرنے کی درخواست کی ہے اور انھیں اس کی اجازت دی گئی۔ اگر انھوں نے اپنی بے گناہی ثابت کر دی تو پھر کیا چھوڑ نہ دیے جائیں گے؟

تاج محل: کتنی بیوقوف ہو! معاف کرنا یا نہ کرنا تو جہاں پناہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ تم سے اشارے اشارے میں نہیں بلکہ صاف کہہ چکے کہ تم چاہو تو وہ بچ سکتا ہے۔ اس کا مطلب سوا اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ اگر تم نکاح کرنا قبول کر لو تو اسے معاف کر دیں گے۔

آخر گلرخ بیگم سست اور خاموش متردد و متفکر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی جہاں پناہ کے سامنے پہنچ کر آداب بجا لائی۔ بادشاہ نے بیٹھنے کی اجازت دی اور وہ چپ چاپ بیٹھ گئی۔ نواب تاج محل بھی آ کے بیٹھیں اور ناشتے کا دسترخوان بچھا۔ اسے خاموش دیکھ کر حضرت ظل سبحانی نے فرمایا: “گلرخ بیگم چپ کیوں ہو؟ بولو باتیں کرو”۔

تاج محل: انھیں اپنے بے وفا میاں کے مارے جانے کا بڑا صدمہ ہے۔

جہاں پناہ: صدمے کی کوئی بات نہیں۔ میں نے تو کہہ دیا کہ اس کا مارا جانا یا بچنا ان کے ہاتھ ہے۔

گلرخ بیگم: لونڈی کی مجال نہیں کہ بادشاہ کے کسی حکم کے بجا لانے میں ذرا بھی تامل کرے، مگر سنتی ہوں جمال خان نے حضرت کے روبرو کچھ عرض معروض کرنے کی درخواست کی ہے۔

جہاں پناہ: ہاں کی ہے۔ مگر کیا کہے گا؟ خالی معافی مانگنے سے کچھ ہو نہیں سکتا اور یہ غیر ممکن ہے کہ اپنے کو بے گناہ ثابت کر دے۔

گلرخ بیگم: تو لونڈی کی بھی تمنا ہے کہ حضرت سے تنہائی میں کچھ عرض کرے۔

جہاں پناہ (ہنس کر): خوب۔ اس میں بھی اس کا ساتھ! خیر جو کچھ کہنا ہو اسی وقت میرے دربار میں جانے سے پہلے کہہ دو۔ دربار کے بعد شاید موقع نکل جائے۔ کیونکہ میں جمال خان کے مقدمہ کا قطعی فیصلہ کر کے اندر آؤں گا۔

گلرخ بیگم: حضور جس وقت موقع دیں گے عرض کر دوں گی۔

چنانچہ ناشتے سے فراغت ہوتے ہی سب لوگ ہٹا دیے گے اور نواب ممتاز الزمانی بیگم بھی اٹھنے کو تھیں کہ گلرخ بیگم نے روکا اور کہا: “حضور کے تشریف لے جانے کی ضرورت نہیں ہے”، مگر انھوں نے نہ مانا اور ایک ضروری کام کا بہانہ کر کے چلی گئیں۔

گلرخ بیگم: حضور! لونڈی اپنی اتنی حیثیت نہیں جانتی کہ جہاں پناہ کے حرموں میں شامل ہو، لیکن حضرت کا یہی حکم ہے تو عذر کی مجال نہیں۔ مگر دو باتیں قیامت ہیں، پہلی یہ کہ حضور بادشاہ بیگم صاحبہ کی جیسی نظر عنایت اس گھڑی ہے پھر نہ رہے گی، وہ ہزار زبان سے قبول فرمائیں مگر دل سے اس کو پسند نہیں کر سکتیں کہ ان کی ایک ادنی لونڈی انھیں کی رقیب بن جائے۔

جہاں پناہ: اور وہ دوسری بات کیا ہے؟

گلرخ بیگم: دوسری یہ کہ اپنے شوہر کے بارے میں مجھ سے کوئی بات نہیں بن پڑتی۔ نہ یہ گوارا ہے کہ وہ مار ڈالے جائیں اور زندہ رہے تو میرے دل سے کسی وقت یہ خیال نہ دور ہوگا کہ جو عورت ان کی جورو رہ چکی، بادشاہ کے پہلو میں لیٹنے کے قابل نہیں ہو سکتی۔ مجھے اپنی صورت سے بیزاری بڑھتی جائے گی۔ پھر چند روز بعد جب مجھ سے حضرت کا دل بھی بھر جائے گا تو میں کہیں کی نہ رہوں گی اور ذلت پر ذلت نصیب ہوگی۔

جہاں پناہ: تمھاری دونوں باتوں پر میں نے غور کیا اور نظر آیا کہ دونوں فقط وہم ہی وہم ہیں۔ نواب ممتاز الزمانی بیگم کی یہ حالت ہے کہ میری خوشی کے لیے ہر قسم کی بُری بھلی باتوں کو جان و دل سے قبول کر لیتی ہیں۔ اس کا ذرا بھی خیال نہ کرو کہ وہ تم سے کبھی بد گمان یا تمھاری بدخواہ ہوں گی۔ وہ تمھاری جتنی خاطر داشت اس وقت کرتی ہیں، ہمارے تمھارے نکاح کے بعد اس سے زیادہ کریں گی۔ میں ان سے اس کا اقرار لے چکا ہوں اور ان کی رضامندی حاصل کرنے کے بعد تم سے عقد کرنے پر آمادہ ہوا ہوں، لہذا اس وہم کو دل سے نکال ڈالو۔ رہی دوسری بات تو جمال خان اس وقت تمھارے ہاتھ میں ہے۔ چاہو اُسے قتل کرو، چاہے جان بخشی کرو۔ اس کے زندہ موجود ہونےمیں جو تمھیں اندیشہ ہے کہ اس کے خیال سے تم کو اپنی عصمت و شرافت میں دھبہ نظر آئے گا، اس کا محض وہم ہونا درکنار واقعہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ تم نے کوئی گناہ نہیں کیا، تمھاری آبرو میں کوئی فرق نہیں آیا۔ جس حیثیت سے غور کرو، سارا قصور جمال خان کا ہے۔ جوں جوں زمانہ گذرتا جائے گا، دنیا بھر میں تمھاری بے گناہی اور اُس کی بدمعاشی برابر عالم آشکارا ہوتی جائیں گی۔ ساری دنیا اس پر تُھڑی تُھڑی کرے گی اور اپنے گناہ اور ظلم خود اس کے دل پر نقش ہوتے جائیں گے۔ اُس وقت اس کو نظر آئے گا کہ وہ اپنی نالائقی کے وبال میں کس قدر ذلیل ہوا اور تم اپنی نیکو کاری کے باعث کس اعلیٰ درجے کو پہنچ گئیں۔ رہے تمھارے آخری الفاظ کہ میرا دل تم سے سیر ہو جائے گا اور خدانخواستہ مجھ سے بے التفاقی ظاہر ہوگی تو میں تمھارے سامنے قسم کھا کے اقرار کرتا ہوں کہ میرے دل کو تمھارے ساتھ جو لگاؤ آج ہے زندگی بھر قائم رہے گا اور کبھی ادنیٰ بے التفاتی بھی نہ ظاہر ہوگی، اور کہو تو تمھارے اطمینان کے لیے اپنی ملکہ سے اس کی ضمانت دلوا کے ان کو بھی ذمہ دار بنا دوں۔

گلرخ بیگم: مجھے کسی کی ضمانت کی ضرورت نہیں، حضرت کا اپنی زبان سے اقرار فرمانا کافی ہے مگر خدا جانتا ہے کہ یہ خوش قسمتی میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی اور میں اپنے لیے ترک دنیا کا قطعی فیصلہ کر چکی تھی۔ تاہم حضور کے سامنے لونڈی ایک شرط اور پیش کرے گی۔ وہ یہ کہ جمال خان کی جان بخشی ہو اور اس کے عہدے، منصب اور وقار میں بھی کوئی فرق نہ آئے۔

جہاں پناہ (ذرا غور کر کے): خیر مجھے یہ بھی منظور ہے، مگر اس وقت صرف جان بخشی ہوگی اور اپنے عہدے اور تمام عزتوں سے وہ محروم کر دیا جائے گا۔ چار مہینے بعد جب تمھاری عدت کا زمانہ گذر جائے گا اور میں شان و شکوہ کے ساتھ تم سے نکاح کروں گا تو اس کا عام طور پر بڑا جشن منایا جائے گا اور اس کے بعد تمھارے ہاتھ سے اس کو یہ سب عزتیں دوبارہ عطا کی جائیں گی۔

گلرخ بیگم (ہنس کر): یہ تو شاید ان کے لیے مارے جانے سے زیادہ اذیت رساں ہوگا۔

جہاں پناہ: یہی نہیں، اُسے ایسی ہی بہت سی ذلتیں نصیب ہوں گی۔ اُسے بتا دیا جائے گا کہ یہ سارا اعزاز و اکرام تم کو نواب جمال آرا گلرخ بیگم کے لطف و کرم سے عطا ہوا ہے۔ اس کے بعد اکثر موقعوں پر تم ہاتھی پر عماری میں سوار ہوگی اور وہ خادموں کی طرح تمھارے آگے آگے دوڑ رہا ہوگا۔

گلرخ بیگم: میں خدا کی قسم انھیں ذلیل کرنا نہیں چاہتی، مگر اب تو جو قسمت میں ہے سامنے آئے گا۔

اب جہاں پناہ بے حد مسرور و شادکام تھے۔ جوش مسرت میں گلرخ بیگم کو کھینچ کے گلے لگایا اور کہا: “گو نکاح بعد ہوگا، مگر تم آج ہی سے میری بیوی ہو”۔

گلرخ بیگم (متحیر و مضطرب): یہ کیسے؟

جہاں پناہ: اس طرح کہ تمھارا اعزاز و اکرام بادشاہِ وقت کی محبوبۂ خاص کا سا ہوگا، اگرچہ وہ تم سے الگ رہے گا۔

گلرخ بیگم: مگر حضرت نے تو اس وقت اس کے خلاف عمل کیا۔

جہاں پناہ: یہ بے تابی تھی اور ایک بے تابانہ حرکت کو امید ہے کہ تم معاف کر دو گی۔