مینا بازار/بارھواں باب: سزائے موت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search


بارھواں باب سزائے موت


دوسرے روز ناشتے کے بعد جیسے ہی حضور جہاں پناہ دربار میں برآمد ہوئے، نواب سعد اللہ خان نے دست بستہ عرض کیا: “حسب الحکم شاہی جمال خان کل گرفتار کر لیا گیا اور میری حراست میں ہے۔ مرضی مبارک ہو تو پیش کیا جائے”۔

بادشاہ اس پر کچھ دیر غور فرماتے رہے، پھر فرمایا: “اس کو میرے سامنے لانے کی ضرورت نہیں۔ تم ہوشیاری کے ساتھ اپنی ہی حراست میں رکھو، اس کی صورت دیکھ کے مجھے تکلیف ہوگی اور اس کی باتیں سن کے مجھے غصہ آئے گا؛ مصلحت اسی میں ہے کہ وہ میرے سامنے نہ آئے”۔ اس کے بعد علامی افضل خان کی طرف جو حاضرِ دربار تھے، متوجہ ہو کے ارشاد ہوا: “میں بتاتا ہوں تم لکھتے جاؤ”۔ انھوں نے فوراً قلمدان منگوایا اور قلم و کاغذ ہاتھ میں لے کر عرض کیا “ارشاد”۔

جہاں پناہ: لکھو، کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین کہ زید کی جورو ہندہ کو خلیفۂ وقت نے چند امور دریافت کرنے اور چند باتیں معلوم کرنے کے لیے اپنے محل میں طلب کیا اور اپنی بیوی کی حفاظت میں تین دن مہمان رکھا۔ اس پر برہم و بد گمان ہو کر زید نے ہندہ کو طلاق بائن دے دی اور اسے زانیہ و حرام کار کہا، جس کے معنی یہ ہوئے کہ اپنی جورو کو زنا کی تہمت لگائی، خلیفہ کو زانی سمجھا اور ملکۂ وقت کو معین زنا قرار دیا۔ ایسی حالت میں از روئے شرع شریف زید کس سزا کا مستوجب ہے؟ بَــیِّنوا وتوجَرُوا۔ پھر فرمایا اس کو درست کر کے صاف کرو اور علما کے پاس بھیج دو کہ آج ہی جواب لکھ کر واپس کر دیں تاکہ کل ان کے فتوے کے بموجب حکم جاری کیا جائے۔

اس کے بعد بادشاہ سعد اللہ خان کی طرف متوجہ ہو کر دیر تک جمال خان کی نسبت اظہار ناراضی کرتے رہے۔ فرمایا: “وہ شکی اور وہمی مزاج ہی کا نہیں، بلکہ بے وقوف بھی ہے۔ اپنی ان نالائقیوں کے نتیجے میں میری اطاعت و وفا داری سے بھی باہر ہوگیا۔ میں اس کے اس جُرم کو بغاوت میں داخل تصور کرتا ہوں اور مجھے نہایت افسوس اس کی بیوی پر آتا ہے جسے صرف میری اطاعت کرنے کے باعث آزار پہنچ گیا”۔ 

اس کے بعد انھیں خیالات کو دل میں لیے ہوئے محل میں گئے اور اندر جاتے ہی گلرخ بیگم کو سامنے بُلوا کے فرمایا: “میں نے جمال خان کو گرفتار کرا لیا اور حراست میں ہے۔ عالموں کے پاس استفتا گیا ہے۔ اُن کا فتوی آتے ہی مناسب تدارک ہو جائے گا مگر مجھے اس کا بہت بڑا صدمہ ہے کہ میری وجہ سے تمھیں صدمہ پہنچ گیا۔ بے شک تم نہایت ملول ہوگی لیکن پریشان نہ ہو۔ خدا نے چاہا تو تم پہلے سے اچھی رہوگی، زیادہ اطمینان و فارغ البالی سے زندگی بسر کرو گی اور جمال خان سے اچھے شخص کے ساتھ تمھاری شادی ہو جائے گی جو تمھارے حُسن و جمال اور تمھاری خوبیوں کا بہت بڑا قدردان ہوگا۔

گلرخ بیگم: جہاں پناہ کی نظر عنایت میں میری سب سے بڑی عزت ہے۔ میرے لیے حضرت ملال نہ کریں۔ باقی رہا دوسری شادی کا معاملہ تو میں ارادہ کر چکی ہوں کہ اب دنیا ترک کر کے کونے میں بیٹھ رہوں اور باقی زندگی بندے کی خدمت کے عوض خدا کی خدمت و اطاعت میں صرف کر دوں۔ بسر ہونے کے لیے میرے پاس حضرت کا دیا ہوا اتنا موجود ہے کہ مجھ سی بہت سی لونڈیاں آرام و اطمینان سے زندگی بسر کر دیں۔

جہاں پناہ: جمال خان نے تمھیں کھڑے کھڑے نکال دیا تو تمھارے پاس کیا رہا ہوگا؟

گلرخ بیگم: حضرت نے لونڈی کو جو خلعت و انعام رخصت کرتے وقت عطا فرمایا تھا اور جو دو لاکھ روپیہ مینا بازار میں عنایت ہوئے تھے، اُس ساری دولت کو گھر سے نکالنے کے تھوڑی دیر بعد انھوں نے میرے پاس یہ کہہ کر بھجوا دیا کہ اپنی یہ حرام کی کمائی اپنے ہی پاس رکھو، میں اس میں سے ایک پیسہ بھی اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتا۔

جہاں پناہ (نہایت ہی غیظ و غضب سے): حرام کی کمائی! میں جو کسی کو انعام دیتا ہوں وہ حرام ہے! تم پاکدامن ہو، تم کو بھی اپنی عصمت و بے گناہی کا یقین ہے۔ میری ملکہ اور سارے محل والے تمھاری عفت کا یقین رکھتے ہیں اور خداوند تعالیٰ آگاہ ہے کہ تم باعصمت و عفیفہ ہو۔ اس کے تہمت لگانے سے کیا ہوتا ہے۔ وہ تہمت لگانے کی سزا پائے گا۔ تم دنیا میں اور زیادہ نیک نام ہوگی اور تمھاری عزت برابر بڑھتی جائے گی۔

گلرخ بیگم: مگر لونڈی کی اتنی تمنا تھی کہ میرا شوہر شاہی عتاب سے بچ جاتا۔

جہاں پناہ: اب وہ تمھارا شوہر نہیں ہے۔

گلرخ بیگم: حضور! اگرچہ میں اس کی جورو نہیں رہی، مگر وہ میرا شوہر ہے اور زندگی بھر رہے گا۔ کیونکہ مرتے دم تک اسی کے نام پر جیوں گی۔

جہاں پناہ: یہ نہیں ہو سکتا۔ بیوہ اور مطلقہ کا نکاح کر دینا شرعاً واجب ہے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ کسی جوان عورت کو بے شوہر کے نہ رہنے دیں۔ رہا تمھارے اس مجرم طلاق دینے والے کا سزا سے بچنا تو یہ میرے اختیار سے باہر ہے۔ میں اور تم دونوں مدعی ہیں۔۔۔۔۔

گلرخ بیگم (بات کاٹ کے): میرا اُن پر کوئی دعوی نہیں ہے۔

جہاں پناہ: مانا کہ تم مدعی نہیں ہو، مگر میں تو ہوں، میری ملکہ تو ہیں اور حاکم شرع شریف ہے۔ لہذا اس کے متعلق کسی کی سفارش نہیں سنی جا سکتی اور اس کے ساتھ یہ بھی سن لو کہ ممکن نہیں کہ تارک الدنیا جوگن بن کے تم بیٹھنے پاؤ۔

گلرخ بیگم: پھر کیا ہوگا؟

جہاں پناہ: تمھاری شادی ہوگی۔

گلرخ بیگم: میں عہد کر چکی ہوں کہ اس پھندے سے چھوٹنے کے بعد پھر دوسرے پھندے میں نہ پھنسوں گی۔

جہاں پناہ: یہ عہد خلاف شرع ہے۔ مگر اس معاملے میں جمال خان کے مقدمہ کا فیصلہ ہو جانے کے بعد غور کیا جائے گا۔

اب جہاں پناہ نے نواب تاج محل اور گلرخ بیگم کے ساتھ خاصہ تناول فرمانے کے بعد کچھ دیر آرام فرمایا اور سہ پہر کو اپنی بعض زیر تعمیر عمارتوں کے معائنے کے واسطے سوار ہو گئے۔

دوسرے ہی روز دربار میں علامی افضل خان نے علما کا دستخطی فتوی ملاحظے میں پیش کر دیا جس پر درج تھا کہ تہمتِ زنا لگانے والے کو اسی کوڑے مارے جائیں اور جہاں پناہ کو تہمت لگانا اور حضرت ملکۂ زمانہ کو بغیر کسی بنیاد کے ملزم ٹھہرانا خلیفہ و حاکم شرع کی گونہ بغاوت ہے۔ لہذا اس جرم کا مرتکب سزائے قتل کا مستوجب ہو سکتا ہے۔ اس پر کئی عالموں کی مہریں تھیں۔ اصل یہ ہے کہ عالموں سے بہ اصرار کہا گیا کہ حضرت جہاں پناہ کا منشا یہ ہے کہ اس مجرم کو قتل کی سزا دی جائے، اگر آپ نے ان کے منشا کے مطابق فتوی دیا تو خلعت و انعام عطا ہوگا اور اگر آپ نے دستخط نہ فرمائے تو جہاں پناہ کی ناراضی کا مستوجب ہوگا۔ یہ سُن کر بعض عالموں نے یہ حکم لکھ دیا اور جن لوگوں نے یہ فتوی دینے سے انکار کیا اُن سے دستخط ہی نہیں لیے گئے۔

اس فتوے کو پڑھ کے جہاں پناہ نے تین بار فرمایا: “مستوجب قتل”، پھر کہا: “میرا بھی یہی خیال تھا کہ ایسے شخص کو قتل کیا جانا چاہیے، میری مرضی بھی یہی تھی۔ مستوجب قتل کے بارے میں ہمارے فردوس نشین آبا و اجداد کا معمول رہا ہے کہ جس طرح چاہتے قتل کراتے، کچھ ضرورت نہیں کہ واجب القتل مجرم تلوار ہی سے قتل ہو۔ لہذا میں حکم دیتا ہوں کہ جمال خان ہاتھی کے پاؤں سے کچلوا کے مارا جائے تاکہ اپنے کیفر کردار کو پہنچے اور دوسروں کو عبرت ہو”۔

یہ سُن کے تمام اہل دربار کانپ گئے اور جن سے ضبط نہ ہو سکا جہاں پناہ کی نظر سے اوجھل ہو کر رومال نکال کے آنسو پوچھنے لگے۔ سب کو اس کا ملال تھا کہ وہی شخص جو کل تک نہایت معزز تھا اور دربار شاہی میں ہمارے برابر کھڑا ہوا کرتا تھا، آج ہاتھی کے پاؤں سے کچلا جائے گا۔

ذرا تامل کے بعد جہاں پناہ نے کوتوال شہر کو بلوا کے حکم دیا کہ جمال خان کو سعد اللہ خان کی حراست سے اپنی حراست میں لو اور لے جا کے ہاتھی کے پاؤں سے پامال کراؤ۔ آج سہ پہر کے بعداور مغرب سے پیشتر اس حکم کی تعمیل ہو جائے۔

یہ حکم دیتے ہی جہاں پناہ دربار برخاست کر کے محل میں آئے۔ مگر یہ قہر و غضب کا حکم نافذ کرنے کی وجہ سے مزاج برہم تھا۔ نواب تاج محل نے پوچھا: “مزاج کیسا ہے؟”

جہاں پناہ: اچھا ہوں۔ مجرموں کو سزا دینے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے مگر شریر اپنی حرکتوں سے نہیں باز آتے۔ ابھی ابھی جمال خان کے لیے سزا دینے کا حکم جاری کر کے آیا ہوں۔

تاج محل: حضرت نے اسے کیا سزا دی؟

جہاں پناہ: عالموں نے اسے واجب القتل بتایا اور میں نے حکم دیا کہ ہاتھی کے پاؤں سے پامال کرایا جائے۔

سنتے ہی تاج محل تھرا گئیں، بے اختیار ان کی زبان سے نکلا “قتل” اور ساتھ ہی گلرخ بیگم نے جو ان کے پیچھے کھڑی تھی، بے تحاشا ایک چیخ ماری اور دھم سے بے ہوش زمین پر گر پڑی۔ خواصوں نے دوڑ کے اٹھایا اور لے جا کے اس کے بچھونے پر ڈال دیا۔

اب تاج محل نے کہا: “جہاں پناہ! یہ تو بڑی سخت سزا ہے۔ گلرخ بیگم اگر اس کے سننے کی تاب نہ لائی تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے”۔

جہاں پناہ: مگر مجھے اس کے غش آنے پر حیرت ہے۔ اس کو تو اپنے ظالم شوہر کے قتل ہونے پر خوش ہونا چاہیے تھا، نہ کہ اتنا بڑا صدمہ ہو۔

تاج محل: اسے اپنے شوہر کے ساتھ بڑی محبت تھی اور اگرچہ اس نے بڑی بے رحمی و ظلم سے چھوڑ دیا مگر یہ اب بھی نہیں چاہتی کہ اس کا بال بیکا ہو۔

جہاں پناہ: واقعی عورت بھی عجب چیز ہے، محبت کا سرچشمہ ہے اور الفت و مروت اس کی گھٹی میں پڑی ہے۔ اگرچہ بعض آوارہ عورتیں بھی بڑی سنگدل ہو جاتی ہیں مگر شریف و پاکدامن عورت شوہر کے ظلم اٹھاتی ہے، اس کے ہاتھ کی مار کھاتی ہے، بے عزت و بے آبرو ہوتی ہے مگر اس کی محبت نہیں چھوڑتی۔ خیر اب تم جلدی اس کے ہوش میں لانے کی تدبیر کرو۔ ضرورت ہو تو حکیم مسیح الزمان کو بلوا لو۔ خدا کرے جلدی ہوش آ جائے اور ناتوانی دور ہو۔ رات کو اس بارے میں پھر گفتگو ہوگی۔

نواب ممتاز الزمانی بیگم نے جا کے دیکھا تو اب تک گلرخ بیگم بے ہوش تھی۔ فوراً حکیم مسیح الزمان بُلائے گے اور ان کے علاج سے گھنٹہ بھر میں ہوش آ گیا۔ آنکھ کھلتے ہی نواب تاج محل کو پاس دیکھا اور پوچھا: “ہائے کیا میرے شوہر مار ڈالے گئے؟” بادشاہ بیگم نے کہا: “گھبراؤ نہیں، ابھی تو شرع کا حکم جاری ہوا ہے لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی مجرم نے عاجزی کی اور معافی مانگی تو جہاں پناہ معاف کر دیتے ہیں۔ بعض لوگ قتل گاہ میں جا کے زندہ بچ آتے ہیں”۔

گلرخ بیگم: مگر جہاں پناہ انھیں تو معاف ہی نہیں کرتے۔

تاج محل: ممکن ہے کہ تم پھر کہو اور میں بھی سفارش کروں تو حضرت قبول فرما لیں اور فرض کرو کہ نہ قبول کریں تو تمھیں ملال کس بات کا؟ اب تم سے ان سے کوئی تعلق نہیں، بالکل غیر ہیں اور سیکڑوں غیر لوگ قتل ہو جاتے ہیں کوئی ان کا افسوس نہیں کیا کرتا۔

گلرخ بیگم: مگر وہ تو میرے میاں ہیں۔ ان کے مرتے ہی میں بیوہ ہو جاؤں گی۔

تاج محل (ہنس کر): کچھ سڑن ہوئی ہو۔ میاں جب تھے تھے، اب تو وہ تمھاری صورت بھی نہیں دیکھ سکتے۔

گلرخ بیگم: مگر میں مرتے دم تک انھیں اپنا میاں ہی سمجھوں گی۔ ہائے کوئی انھیں بچا دیتا۔

تاج محل: اچھا آج رات کو جہاں پناہ سے عرض کرنا۔ میں بھی کہوں گی۔

گلرخ بیگم: بچنے کی کوئی صورت ہے؟

تاج محل: ہاں ہے۔ سنتی ہوں لوگ جمال خان کو قتل کرنے کے لیے لے کر چلے تو اس نے درخواست کی کہ میں مرنے سے پہلے بادشاہ سے بالمشافہ دو باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ جہاں پناہ نے اس کو قبول فرمایا اور حکم ہوا کہ کل دربار کے آخر وقت وہ حاضر کیا جائے۔ ممکن ہے کہ وہ اپنی بے گناہی ثابت کر دے یا ایسے لہجے اور الفاظ میں رحم کی التجا کرے کہ بادشاہ کو اس پر ترس آ جائے۔

ان باتوں سے اطمینان تو کیا ہوتا، مگر گلرخ بیگم کے دل کو ذرا یونہی سی ڈھارس بندھ گئی۔ خاموش ہو رہی اور نواب تاج محل یہ کہہ کر کہ “اب تم ذرا دیر کو سو رہو”، اسے تنہا چھوڑ کے بادشاہ کے پاس چلی گئیں۔ ان کی صورت دیکھتے ہی حضرت ظل سبحانی نے پوچھا: “گلرخ بیگم کیسی ہیں؟”

تاج محل: اب اچھی ہیں۔ حکیم صاحب کی دوا نے فوراً فائدہ کیا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد آنکھیں کھول دیں اور باتیں کرنے لگیں۔ پھر بتایا کہ آنکھ کھلتے ہی انھوں نے کیا پوچھا اور ساری گفتگو بادشاہ کے سامنے دوہرا دی۔

جہاں پناہ: بڑا تعجب ہے کہ اس عورت کو ایسے ظالم شوہر کے ساتھ اس درجہ محبت ہے۔

تاج محل: وہ تو اس وقت تک جمال خان کو اپنا شوہر بتاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ مرتے دم تک انھیں کو اپنا شوہر سمجھوں گی۔

جہاں پناہ: صرف زنانہ جہالت ہے۔ ورنہ اب ان کو جمال خان سے کیا علاقہ رہا؟

یہ کہہ کے بادشاہ نے کچھ رازداری کی باتوں کے لیے سب عورتوں اور خواصوں کو ہٹا دیا۔ نواب ممتاز الزمانی بیگم کو بالکل اپنے پاس بٹھایا اور کچھ ایسی باتیں ہونے لگیں جن سے پہلے تاج محل کچھ کبیدہ خاطر و ناراض ہوئیں، پھر تدریجاً راضی ہوتی گئیں۔ یہاں تک کہ جہاں پناہ نے اپنی لجاجت و استمالت سے خوش کر دیا۔ پھر دسترخوان بچھا، دونوں نے ساتھ خاصہ تناول کیا اور جہاں پناہ مسہری پر لیٹ کے آرام فرمانے لگے۔