معشوق ہمیں بات کا پورا نہیں ملتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
معشوق ہمیں بات کا پورا نہیں ملتا
by بیخود دہلوی

معشوق ہمیں بات کا پورا نہیں ملتا
دل جس سے ملائیں کوئی ایسا نہیں ملتا

دنیا میں اگر ڈھونڈیئے تو کیا نہیں ملتا
سب ملتے ہیں اک چاہنے والا نہیں ملتا

عشاق سے یوں آنکھ تمہاری نہیں ملتی
اغیار سے دل جیسے ہمارا نہیں ملتا

رہتی ہے کسر ایک نہ اک بات کی سب میں
ہم کو تو ان اچھوں میں بھی اچھا نہیں ملتا

کچھ حال سنے کچھ ہمیں تدبیر بتائے
غم خوار تو کیسا کوئی اتنا نہیں ملتا

کیا مفت میں تم دل کے خریدار بنے ہو
بے خرچ کئے دام یہ سودا نہیں ملتا

جب دیکھیے ہم راہ ہے دشمن کا تصور
ہم سے تو وہ خلوت میں بھی تنہا نہیں ملتا

دل کوئی ملاتا نہیں ٹوٹے ہوئے دل سے
دنیا میں ہمیں جوڑ ہمارا نہیں ملتا

برباد کیا یاس نے یوں خانۂ دل کو
ڈھونڈے سے بھی اب داغ تمنا نہیں ملتا

جو بات ہے دنیا سے نرالی ہے نئی ہے
انداز کسی میں بھی تمہارا نہیں ملتا

آنکھیں کہے دیتی ہیں کہ دل صاف نہیں ہے
ملتا ہے وہ اس رنگ سے گویا نہیں ملتا

کہتے ہیں جلانے کو ہم اغیار کے منہ پر
ایسوں سے تو وہ رشک مسیحا نہیں ملتا

ظاہر ہے ملاقات ہے باطن میں جدائی
تم ملتے ہو دل ہم سے تمہارا نہیں ملتا

افسوس تو یہ ہے کہ تمہیں قدر نہیں ہے
عاشق تو زمانے میں بھی ڈھونڈا نہیں ملتا

کہنا وہ شرارت سے ترا دل کو چرا کر
کیا ڈھونڈتے ہو ہم سے کہو کیا نہیں ملتا

بیخودؔ نگہ لطف پہ دے ڈالئے دل کو
جو ملتا ہے سرکار سے تھوڑا نہیں ملتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse