محرومی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
محرومی
by میراجی
304663محرومیمیراجی

میں کہتا ہوں تم سے اگر شام کو بھول کر بھی کسی نے کبھی کوئی دھندلا ستارہ نہ دیکھا
تو اس پر تعجب نہیں ہے نہ ہوگا
ازل سے اسی ڈھب کی پابند ہے شام کی ظاہرا بے ضرر شوخ ناگن
ابھرتے ہوئے اور لچکتے ہوئے اور مچلتے ہوئے کہتی جاتی ہے آؤ مجھے دیکھو میں نے
تمہارے لیے ایک رنگین محفل جمائی ہوئی ہے
انوکھا سا ایوان ہے ہر طرف جس میں پردے گرے ہیں وہاں جو بھی ہو اس کو
کوئی نہیں دیکھ سکتا
تہیں اس کے پردوں کی ایسے لچکتی چلی جاتی ہیں جیسے پھیلی ہوئی سطح دریا نے
اٹھ کر دھندلکے کی مانند پنہاں کیا ہو فضا کو نظر سے
ذرا دیکھو چھت پر لٹکتے ہیں فانوس اپنی ہر اک نیم روشن کرن سے سجھاتے
ہیں اک بھید کی بات کا گیت جس میں مسہری کے آغوش کی لرزشیں ہوں
ستونوں کے پیچھے سے آہستہ آہستہ رکتا ہوا اور جھجکتا ہوا چور سایہ یہی کہہ رہا
ہے وہ آئے وہ آئے
ابھی ایک پل میں اچانک یونہی جگمگانے لگے گا یہ ایوان یکسر
ہر اک چیز کیسے قرینے سے رکھی ہوئی ہے
میں کہتی ہوں مانو چلو آؤ محفل سجی ہے
تم آؤ تو گونج اٹھے شہنائی دالان میں آنے جانے کی آہٹ سے ہنگامہ پیدا
ہو لیکن مسہری کے آغوش کی لرزشوں میں تمہیں اس کا احساس
بھی ہونے پائے تو ذمہ ہے میرا
ازل سے اس ڈھب کی پابند ہے موج بیتاب اس کو خبر بھی نہ ہوگی کہ اک شاخ نازک
نے بے باک جھونکے سے ٹکرا کے آہیں بھری تھیں
مگر میں یہ کہتا ہوں تم سے اگر شاد کو بھول کر بھی کسی نے کبھی کوئی دھندلا ستارہ
نہ دیکھا تو اس پر تعجب نہیں ہے
ازل سے اسی ڈھب کی پابند ہے شام کی شوخ ناگن
یہ ڈستی ہے ڈستے ہوئے کہتی جاتی ہے
جاؤ اگر تم جھجکتے رہوگے تو
ہر لمحہ یکساں روش سے گزر جائے گا اور تم دیکھتے ہی رہوگے اکیلے اکیلے
تمہیں دائیں بائیں تمہیں سامنے کچھ دکھائی نہ دے گا فقط سرد دیواریں ہنستی رہیں گی
مگر ان کا ہنسنا بھی آہستہ آہستہ بیتے زمانے کی مانند اک دور کی بات معلوم ہونے لگے گا
دھندلکے میں ڈوبی ہوئی آنکھ دیکھے گی روزن سے دور اک ستارہ نظر آ رہا ہے
مگر چھت پہ فانوس کا کوئی جھولا نہ ہوگا
شکستہ فتادہ ستونوں کی مانند فرش حزیں پر تمہارا وہ سایہ تڑپتا رہے گا جسے
یہ تمنا تھی کہہ دوں تمنا کیا تھی
بس اب اپنی غم ناک باتوں کو اپنے ابھرتے ہوئے اور بدلتے ہوئے رنگ میں تو چھپا لے
میں اب مانتا ہوں کہ تو نے روانی میں اپنی بہت دور روزن سے دھندلے
ستارے بھی دیکھے ہیں لاکھوں
میں اب مانتا ہوں مری آنکھ میں ایک آنسو جھلکتا چلا جا رہا ہے ٹپکتا نہیں ہے
میں اب مانتا ہوں مجھے دائیں بائیں مجھے سامنے کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے فقط
سرد دیواریں ہنستی چلی جا رہی ہیں
میں اب مانتا ہوں کہ میں نے اس ایوان کو آج تک اپنے خوابوں میں دیکھا ہے لیکن
وہاں کوئی بھی چیز ایسے قرینے سے رکھی نہیں ہے
کہ جیسے بتایا ہے تو نے تری ایک رنگین محفل سجی ہے
مسہری کے آغوش کی لرزشوں کا مجھے خواب بھی اب نہ آئے گا میں اپنے
کانوں سے کیسے سنوں گا وہ شہنائی کی گونج سیندور
کا سرخ نغمہ جسے سن کے دالان میں آنے جانے کی آہٹ
سے ہنگامہ ہو جاتا ہے ایک پل کو
مجھے تو فقط سرد دیواریں ہنستی سنائی دیے جا رہی ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse