مانا کہ مرا دل بھی جگر بھی ہے کوئی چیز

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مانا کہ مرا دل بھی جگر بھی ہے کوئی چیز
by نوح ناروی
331277مانا کہ مرا دل بھی جگر بھی ہے کوئی چیزنوح ناروی

مانا کہ مرا دل بھی جگر بھی ہے کوئی چیز
لیکن وہ نظر تیر نظر بھی ہے کوئی چیز

ممکن نہیں وہ چاہنے والوں کو نہ چاہیں
اخلاص و محبت کا اثر بھی ہے کوئی چیز

لٹ جائے کہ رہ جائے رہ عشق و وفا میں
دل بھی ہے کوئی مال جگر بھی ہے کوئی چیز

ان سے جو نہ اٹھا تھا اسے اس نے اٹھایا
قائل ہیں ملائک کہ بشر بھی ہے کوئی چیز

چھپنے کے لئے شوق سے پردے میں چھپیں آپ
اتنا رہے معلوم نظر بھی ہے کوئی چیز

یہ کثرت آزار و غم و رنج کہاں تک
اے شام شب ہجر سحر بھی ہے کوئی چیز

کہتے ہو ہم آئیں گے مگر ظلم کریں گے
سوچو تم اگر تو یہ مگر بھی ہے کوئی چیز

باقی نہ رہی ناوک دل دوز کی حاجت
ظالم تری سیدھی سی نظر بھی ہے کوئی چیز

نالے سے کہوں گا کہ پہنچ عرش بریں تک
اب تیز مسافر یہ سفر بھی ہے کوئی چیز

بیتاب ادھر آپ پریشان ادھر ہم
آپس کی محبت کا اثر بھی ہے کوئی چیز

چلتی ہوئی میرے دل بے تاب کو لے کر
لاکھوں میں وہ دزدیدہ نظر بھی ہے کوئی چیز

بے کار نہ جائے گا مرے دل کا تڑپنا
نالہ ہے کوئی شے تو اثر بھی ہے کوئی چیز

آنکھوں کے لئے ذوق نظر بھی ہے کوئی بات
پہلو کے لئے درد جگر بھی ہے کوئی چیز

اللہ رے ترے حسن ضیا بار کا جلوہ
یہ پیش نظر ہو تو نظر بھی ہے کوئی چیز

اے نوحؔ شب ماہ میں پاس اس کو بٹھا کر
کہتا ہوں مرا رشک قمر بھی ہے کوئی چیز

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse