عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
by مرزا غالب
298947عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہیمرزا غالب

عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت تری شہرت ہی سہی

قطع کیجے نہ تعلق ہم سے
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی

میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی
اے وہ مجلس نہیں خلوت ہی سہی

ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے
غیر کو تجھ سے محبت ہی سہی

اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی

عمر ہرچند کہ ہے برق خرام
دل کے خوں کرنے کی فرصت ہی سہی

ہم کوئی ترک وفا کرتے ہیں
نہ سہی عشق مصیبت ہی سہی

کچھ تو دے اے فلک ناانصاف
آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی

ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے
بے نیازی تری عادت ہی سہی

یار سے چھیڑ چلی جائے اسدؔ
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse