صورت کا اپنی یار پرستار تھا سو ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
صورت کا اپنی یار پرستار تھا سو ہے
by عشق اورنگ آبادی

صورت کا اپنی یار پرستار تھا سو ہے
آئینہ دل اس کو جو درکار تھا سو ہے

یہ دل ہے تیغ ابروئے خم دار کا شہید
اس کا گواہ دیدۂ خم دار تھا سو ہے

مالک ہے میرے دل کا خدا تجھ سے اے صنم
پیوستہ بندگی کا جو اقرار تھا سو ہے

ظاہر میں گرچہ کفر سے منکر ہوا ہے شیخ
پوشیدہ اس کی سبحہ میں زنار تھا سو ہے

تجھ خط کی یاد میں دل حیران عشق کا
در نجف کی طرح سے مودار تھا سو ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse