شرر کے سفرنامے/چند گھنٹہ جبرالٹر میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

چند گھنٹہ جبرالٹر میں


مسلمانوں کی گذشتہ شان و شوکت کی یادگاروں اور خیر القرون کے قابل قدر تبرکات میں سے ایک یہ مقام بھی ہے جو بحیرۂ روم کے پھاٹک پر آج بھی کھڑا پہرے دے رہا ہے، اور چونکہ یہ عربی الفاظ جبل الطارق سے بگڑ کے جبرالٹر بنا ہے، اس لیے ممکن نہیں کہ یہ الفاظ گوش زد ہوں اور مسلمانوں کے خیالات کسی اگلی دنیا اور اگلے زمانہ کی سیر نہ کرنے لگیں۔

مجھے بھی انگلستان سے واپس آتے وقت جب یہ خیال آیا کہ چند ساعت کے لیے ہمارا جہاز جبرالٹر پر ٹھہرے گاتو شوق نے ایک بے چینی کے انتظار کی صورت پیدا کر لی۔ خلیج بسکے کی موجیں جہاز کو زیر و زبر کر رہی تھیں، ہمارا اسٹیمر ایک ایسے بیمار کی طرح جسے انتہا سے زیادہ کرب ہو کروٹوں پر کروٹیں بدل رہا تھا، اکثر ساتھی بلکہ قریب قریب تمام ہم سفر سمندر کی بیماری میں مبتلا اپنے اپنے کیبن (کمرے) میں پڑے ابکائیاں لے رہے تھے۔

مگر میری یہ حالت تھی کہ ہجومِ شوق میں کسی قسم کی بدمزگی بھی نہیں محسوس ہوئی۔ بار بار اٹھ کے ڈِک پر جاتا تھا اور دوربین لگا لگا کے مشرق کی طرف نگاہ دوڑاتا تھاکہ شاید کہیں پہ جزیرہ نمائے اسپین کے سواحل نظر آجائیں تاکہ اسی مرکز پر خیالات کو ٹِکا کے دل ہی دل میں اس سرزمین کی سیر کرلوں، جسے صدہا سال تک مسلمانوں اور عربوں سے تعلق رہا تھا۔ آخر کئی دن کے انتظار کے بعد ایک طرف تو خلیج بسکے کاتلاطم موقوف ہوا، بحر ایٹلینٹک (بحر اعظم مغرب) نے ہمیں اپنی متانت کی آغوش میں لیا اور دوسری طرف سواحل اندلس نظر کے سامنے تھے، اسپین کے طیور ہمارے استقبال کو دوڑے اور جہاز کے گرد منڈلانے لگے اور وہاں کے پہاڑوں نے سر اٹھا کے ہم سے نظر بازیاں شروع کیں، بمصداق:

وعدۂ وصل چوں شود نزدیک


آتش شوق تیز تر گردد


اس وقت میں اپنی بے تابی اور بے صبری میں اور زیادہ اضطراب پاتا تھا کہ ہائے قریب ہیں اور نہیں جاسکتے۔ اگرچہ یہ تمام حصہ جو اس وقت میری نظر کے سامنے تھا، اگلے دنوں دولت ہسپانیہ میں شامل تھا مگر آج کل کی تقسیم جغرافیہ کے لحاظ سے یہ اسپین نہیں پورچگل یعنی پرتگیز وں کا ملک ہے۔ اگرچہ سوا ایک دھندلی سواد اور تیرگی کے دامن سےسر نکالنے والی پہاڑیوں کے کچھ نہیں نظر آتا تھا، مگر میں اپنی یادداشت کی مدد سے پتہ لگا کے خیال کی آنکھوں سے ہر چیز کو دیکھتا چلا جاتا تھا۔ یہ الفاظ ہیں جو اُس محویت کے عالم میں میری زبان پر جاری تھے کہ “اب ہم القُباسہ کے سامنے ہیں” اور “اب ہم راس رقاعہ پر سے گزر رہے ہیں” اور “دیکھو اب وہ سامنے دریائے ٹیگس سمندر میں گر رہا ہے”۔ دریائے ٹیگس کا یاد آنا تھا کہ اسی نہر کے ذریعہ سے میں نے اپنے خیال کی کشتی پر بیٹھ کےایک سیر کی اورطلیطلہ اور اسپین کے بہت سے نامور شہروں کی سیر کر آیا۔ اپنی اس روحانی معراج سے چونکا ہی تھا کہ معلوم ہوا ہم جزیرہ نمائے اسپین کے اس صوبے کے برابر ہیں جو الغرب کہلاتا ہے اور فی الحال پورچگل میں شامل ہے، میں دل میں یہ کہہ ہی رہا تھا کہ “اب پورچگل ختم ہونے کو ہے اور ہم خاص ارض اندلوسیہ میں داخل ہونے کو ہیں” کہ ناگہاں خشکی بہت قریب ہو گئی اور زمین کا ایک سرا اس طرح پاس آگیا کہ گویا جزیرہ نمائے اسپین نے ہم سے مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ بڑھا دیا۔ زمین کے اس کونے پر ایک پرانی عمارت نظر آئی، کیپٹن نے پاس آ کے بتایا کہ یہ ایک قدیم کانونٹ (ننوں کی خانقاہ ہے) جو سینٹ ویسنٹ کے نام سے مشہور ہے اور اسی وجہ سے زمین کا یہ کونا راس سینٹ ویسنٹ کہلاتا ہے۔ فی الحال یہ خانقاہ غیر آباد پڑی ہے، مگر کسی زمانہ میں نہایت ہی مقدس جگہ خیال کی جاتی تھی۔ اتنا سنتے ہی ہم سب نے اپنی دور بینیں اٹھائیں اور اس عمارت کی محرابوں اور دیوار و در؛ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ہرہر اینٹ کا مطالعہ شروع کیا۔ فی الحال اس خانقاہ سے ایک لائٹ ہوس کا کام لیا جاتا ہے، محرابیں اور اوپر کی کھڑکیاں بالکل گاتھک وضع کی ہیں، مگر اس کا اجاڑ پن اوربے کسی و کس مپرسی کی وجہ سے ایک سنسان حالت میں پڑا رہنا یاد دلا رہا ہےکہ یہاں مسلمانوں کی قدیم عمارتوں پر بھی یہی حسرت ناک خموشی طاری ہوگی۔

جب تک نظر نے کام دیا مَیں اس عمارت کو دیکھتا رہا ؛ یہاں تک کہ شام ہو گئی اور رات کی تاریکی نے جس طرح کوئی دو بچھڑ کے ملنے والوں کو جدا کرے، ہمیں اس عمارت سے جدا کردیا؛ تاہم ان سواحل کے دیکھنے کا شوق فرو ہونا کیسا ساعت بہ ساعت بڑھتا جاتا تھا۔ رات کو کئی مرتبہ میں اس وقت اپنے کمرہ سے نکلا جبکہ سمندر نے تمام ہم سفروں کو کیبن کے جھولوں میں ڈال کے اورنرم و خوش گوار جھونکے دے دے کے سلا دیا تھا، ڈِک پر جا کے سواحل اسپین کو شوق کی نگاہوں سے دیکھا۔ چاندنی ایسی نکھری ہوئی تھی جس کے دیکھنے کو ایک سال سے کچھ زیادہ زمانہ تک انگلستان میں ترستے رہے تھے، سمندر کی بے قرار موجیں چاند کے عکس کو سطح آب کے آئینہ پر ایک لمحہ کے لیے بھی کسی پہلو پر قرار نہ لینے دیتی تھیں اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا آسمان ہر طرف پانی پر نور کی افشاں چھڑک رہا ہے۔ اس دلفریب منظر کے کنارہ پر مٹے مٹے سواحل اسپین بھی نظر آ رہے تھے، مگر رات کی تیرگی آتش شوق کو نہ بجھنے دیتی تھی۔ پچھلی رات کو ہم وادی الکبیر کے دہانہ پر سے ہوتے ہوئے شہر قادس کے قریب سے گزرے اور صبح ہوتے ہوتے دیکھا کہ داہنے بائیں دونوں طرف افریقہ و یورپ کے سواحل ساعت بہ ساعت ہم سے قریب ہوتے جاتے ہیں، ہمارے داہنے ہاتھ کی طرف افریقہ ہے اور بائیں ہاتھ کی طرف یورپ اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے دونوں طرف کی پہاڑیاں ایک دوسرے سے بغل گیر ہونے کے لیے بڑھتی چلی آتی ہیں۔ سب کے پہلے جنوب کی طرف ہم نے اس پہاڑ کی چوٹی کو بہت گھور گھور کے دیکھا جس کے نیچے شہر ٹنجیریا اگلے دنوں کا شہر طنجہ آباد ہے۔ آنکھوں پر بہت کچھ زور ڈالنے سے بھی شہر کی کوئی چیز نظر نہ آئی، مگر تاریخ نے بتا دیا کہ اسی جگہ ہمارے قدیم بہادر مشنری اور نامور جنرل عقبہ بن نافع نے سمندر میں گھوڑا ڈال کے آسمان کی طرف دیکھا تھا اور یہ الفاظ زبان سے نکالے تھے کہ “خداوندا ! اگر یہ سمندر میرا راستہ نہ روکتا تو میں برابر یوں ہی مغرب کی طرف رخ کیے جہاں تک زمین ملتی تیرے مقدس نام اور تیری توحید کی منادی کرتا چلا جاتا” اور پھر یہ یاد آیا کہ آٹھویں صدی ہجری کا مشہور سیاح ابن بطوطہ انھیں پہاڑوں سے نکل کے ساری دنیا کی سیر کر آیا تھا، جس کا سفرنامہ آج کل کے متجسسوں کے ہاتھ میں گویا اس زمانے کی حالت دکھانے کا ایک روشن چراغ ہے۔

آگے بڑھے، طنجہ کا کوہسار ہماری نظر سے غائب ہوا تو بائیں طرف یورپین ساحل پر ہمیں شہر طریفہ کی سفید سفید عمارتیں نظر آئیں، اس چھوٹے ساحلی شہر کی صورت دیکھ کے میں نہیں کہہ سکتا کہ میرےدل کی کیا حالت ہوئی۔ اپنا پرانا مکان غیر کے قبضے میں دیکھ کر یا اپنے کسی نامورا و رمشہور عزیز یا بزرگ کی قبر دیکھ کے جو خیالات کسی انسان کے دل میں گزر سکتے ہیں، وہ خیالات اس شہر طریفہ کو دیکھ کے میرے دل میں گزرے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سب کے پہلے طریف نام ایک عربی نژاد بہادر صرف دوسو بہادروں کے ساتھ پورے ملک ہسپانیہ کے فتح کرنے کے ارادہ سے اترا تھا اور چونکہ یہ شہر اسی کی یادگار میں آباد کیا گیا تھا لہذا طریفہ نام پڑ گیا اور آج تک اسی نام سے مشہور ہے۔ شہر طریفہ کے عین محاذات میں ساحل افریقہ پر ایک قدیم اسلامی شہر القصر کے کھنڈر پڑے ہوئے ہیں جن کو ایک چھوٹی سی راس جو “راس القصر”کہلاتی ہے، ذرا آگے بڑھ کے اشارے سے بتا رہی ہے۔

اب ہم آبنائے جبرالٹر میں تھے اور دل میں اس سمندر کو ادب اور عبرت کی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے، دل گواہی دے رہا تھا کہ ہمارا جہاز ان خطوط کو ضرور قطع کرے گا جن پر سے کبھی قرون اولیٰ کے مجاہدین کے وہ گروہ جن میں دو ایک صحابی اور دربار رسالت کے یادگار بھی ضرور ہوں گے، گزر رہے تھے۔ چلتے چلتے ہمارا اسٹیمر ایک ایسے مقام پر پہنچا جہاں یورپ کی طرف سمندر دو تین میل تک زمین کے اندر بڑھ گیا ہے اور اس حصہ کو خلیج جبرالٹر کہتے ہیں۔ اس خلیج کے مشرقی کونے پر شہر جبرالٹر واقع ہے اور مغربی کونے پر کوہسار کبریتہ، خلیج جبرالٹر کے دہانہ پر دونوں جانب یہ دو یورپین پہاڑ جبرالٹر اور کبریتہ سر اٹھائے کھڑے ہیں، جن میں سے پہلے یعنی جبرالٹر پر انگریزوں کا قبضہ ہے اور دوسرا حکومت اسپین کے تابع ہے۔ اس خلیج کے مغربی سواحل پر کوہ کبریتہ سے تھوڑی دور آگے بڑھ کے قدیم شہر الجزیرہ ہے جس کو مسلمان مورخین جزیرۃ الخضراء کہتے ہیں۔ دولت امویہ کے عہد میں یہ شہر نہایت رونق پر تھا، اگلے امرا اس کی نزہت و شادابی کے نہایت ہی مداح ہیں اور یہاں اکثر امرائے اسپین و مراکو کا مجمع رہا کرتا تھا۔ آج بھی الجزیرہ کی سفید سفید پختہ عمارتیں پہاڑوں اور سمندر کے درمیان میں ایک مسطح اور ڈھالو تختۂ زمین پر نہایت ہی خوبصورتی سے بکھری اور پھیلی نظر آتی ہیں، جن کے قریب ایک معمولی حیثیت کا قلعہ بنا ہوا ہے اور ریل کی سڑک اس قلعہ کے نیچے سے گزر کے اندرونی بلاد اسپین کو گئی ہے۔ قلعہ سے تھوڑی دور شمال کی طرف ہٹ کے شہر المرندہ ہے جو آج ایک نہایت ہی معمولی قصبہ کی حیثیت سے بےرونق پڑا ہے اور سمندر سے کسی قدر ہٹ کے بلندی پر واقع ہے۔ المرندہ سے شمال کی طرف ہٹ کے دریائے وادی الرنگ سمندر میں گرا ہے۔ اس خلیج کے مشرقی سواحل پر اور کوئی آبادی نہیں اور وجہ یہ کہ اس طرف ایک پتلا سا حصۂ زمین خلیج کی حد بندی کرتا ہوا بہت آگے کو بڑھتا چلا آیا ہے، جس کے عین سِرے پر بلند قلۂ کوہ ہے جس پر طارق اپنی فوج لے کے اترا تھا اور جہاں پر کہ آج شہر جبرالٹر آباد ہے۔ جبرالٹر سے شمال کی طرف فاصلہ پر اور وادی الرنگ کے پہاڑوں کے نزدیک ایک قدیم شہر مجورقہ بھی پڑا ہوا ہے، مگر اس کے مکانات نہیں نظر آتے۔

اس خلیج کے مقابل افریقہ کے ساحل پر راس المنع نام ایک حصۂ زمین پانی کے اندر تک برابر بڑھ آیا ہے اور اسی راس کی پشت پر وہ مشہور شہر سبتہ واقع ہے جہاں کے فرماں روا جولین نے اپنی بیٹی کی بےعزتی پر برہم ہو کے مسلمانوں کو فتح اسپین پر آمادہ کیا تھا۔([1]) موجودہ سبتہ نو آباد مقام ہے اور قدیم سبتہ کے کھنڈر وہاں سے دو میل مغرب کی طرف ہٹ کے پڑے ہوئے ہیں۔ وہ کوہسار جو سبتہ سے شروع ہو کے آبنائے، جبرالٹر کے آخری حصے یعنی مغربی کونے تک سواحل افریقہ پر چلا گیا ہے، وہ آج تک موسی بن نصیر کے نام سے نامزد ہے اور جبل موسی کہلاتا ہے۔ الغرض یہ وہ مقام ہے جس میں غور سے دیکھیے تو ہر چیز قدیم اسلامی تاریخ اور گذشتہ ناموران اسلام کے کارنامے یاد دلاتی ہے۔

ہمارا اسٹیمر جبرالٹر کے قریب پہنچ کے ٹھہر گیا۔ شہر جبرالٹرکے دو حصے ہیں اور دونوں عظیم الشان اور سر بفلک پہاڑ کے دامن پر واقع ہیں، ایک حصہ میں تو خاص وہیں کے باشندے رہتے ہیں اور ایک حصے میں انگریز بھی آباد ہیں اور وہاں کے لوگ بھی۔ پہاڑ کی بلندی پر سمندر سے کھڑے ہو کے دیکھیے تو سوا برہنہ اور سیاہ چٹانوں کے کچھ نہیں دکھائی دیتا، لیکن اصل میں یہ پورا پہاڑ ایک زبردست انگریزی قلعہ ہے۔ جہاز کے ٹھہرنے کے تھوڑی ہی دیرکے بعد ایک دخانی کشتی پر سوار ہو کے میں شہر میں گیا، ہم جیسے ہی بندرگاہ پر پہنچے تو ہم نے تعجب سے دیکھا کہ ساحل پر رہنے والوں کے لیے ایک چھوٹا سا مارکٹ بنا ہے، اس میں ملک مراکش کے عرب کُرتے اور شرعی پائجامہ پہنے اورسر پر ترکی ٹوپیاں رکھے سودا بیچ رہے ہیں۔ ان لوگوں کے پاس جا کے میں نے عربی میں کچھ باتیں کرنا چاہیں، مگر سوا دو ایک لفظوں کے نہ وہ میری سمجھ سکے نہ میں ان کی سمجھ سکا اور وجہ یہ ہے کہ مراکو کی عربی، مصر و شام اور خاص عرب کی زبان سے اس قدر جدا ہو گئی ہے کہ بغیر اس ملک میں چند روز رہے شام و مصر والے بھی ان کی زبان نہیں سمجھ سکتے، بھلا میں کیا سمجھ سکتا؛ مگر اتنا ضرور معلوم ہوا کہ دیگر بلاد اسپین میں تو مسلمان نام کو بھی نہیں، مگر خاص جبرالٹر میں انگریزی حکومت کی وجہ سے مرا کو کے تاجروں کو خرید و فروخت کے لیے آنے اور رہنے کی آزادی ہے اور مرا کو کے محنت مزدوری کرنے والے بھی یہاں آکے بسر کرتے ہیں، لہذا کہنا چاہیے کہ بہت دنوں کی جلاوطنی کے بعد مسلمانوں کو جبرالٹر میں پھر قدم ٹکانے کا موقع مل گیا۔

تھوڑی دیر یہاں ٹھہر کے میں ایک پھاٹک میں سے ہو کے شہر کے اندر داخل ہوا۔ دیگر بلاد یورپ کی سی صفائی تو کہاں، مگر پھر بھی نہایت با رونق شہر ہے۔ عمارتیں دامن کوہ پر بلند ہوتی چلی گئی ہیں اور جگہ کی تنگی کی وجہ سے سڑکیں بھی ایسی وسیع نہیں جیسی کہ آج کل ضروری خیال کی جاتی ہیں۔ اسپین کا حسن تمام یورپ میں مشہور ہے، جبرالٹر اگرچہ اس امر کی آزمائش کے لیے ایک نہایت ہی بگڑا نمونہ ہے، مگر تاہم اسپین کے چہروں کی عام بناوٹ اورصنفی خط و خال کا پورا نمونہ نظر آسکتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جن آنکھوں میں شمالی یورپ کے حد سے زیادہ گورے چہرے کُھپے ہوئے ہوں، ان کو حسینانِ اسپین کے چہرے پر پہلے پہل ایک تیر گی نظر آئے گی۔ وہاں کا گورا پن ویسا ہی ہے جس کو مصر و ایران والے، یا ہندوستان میں کشمیرو افغانستان کے لوگ گورا کہیں گے، مگر انگلستان کے مذاق میں اس رنگ کو ڈارک یاسانولا کہتے ہیں۔ اسپین کی عورتوں کے چہرے عموماًچوڑے اور نہایت ہی خوبصورت ہوتے ہیں، آنکھیں کالی اور بال سیاہ ہیں۔ غرض وہ تمام باتیں موجود ہیں جن کے اعتبار سے ایک مشرقی ممالک کا رہنے والا ان کے حسن کو یورپ کے حسن پر ترجیح دے گا، مگر یہ بات تعجب کی ہے کہ ہم ہی نہیں یورپ کے تمام لوگ بھی اسپین کے حسن کے قائل ہیں۔ بول چال، عادات و اطوار اور تراش خراش، تمام باتوں میں وہ لوگ انگریزوں سے جدا نظر آتے ہیں اور مجھے یہ دیکھ کے حیرت ہوگئی کہ جبرالٹر کے یورپ میں ہونے سے وہاں والوں کو کوئی معتد بہ فائدہ نہیں ہوا؛ اس لیے کہ جس طرح کے نیٹو ہم ہندوستان میں سمجھے جاتے ہیں، ویسے ہی نیٹو وہ لوگ جبرالٹر میں ہیں۔

میں نے ایک گاڑی کرایہ پر کی اور شہر کی خوب سیر کرکے قلعہ کی راہ لی۔ یہاں کا قلعہ دولت برطانیہ میں سب سے زبردست اور اول درجہ کا قلعہ تصور کیا جاتا ہے۔ سوا انگریزی رعایا کے اور لوگوں کو قلعہ کے اندر جانے کی ممانعت ہے۔ بیرونی پھاٹک پر میں نے ایک رجسٹر میں اپنا نام لکھ دیا اور دو یورپین سپاہیوں کے ساتھ اندر روانہ ہوا۔ پہاڑ کے اندر کاٹ کے راستہ بنایا گیا ہے جو ایک سرنگ کی طرح پہاڑ کے گرد چکر کھاتا ہوا اوپر چڑھتا چلاگیا ہے۔ اس سرنگ کے منہ پر ایک بڑا پھاٹک لگا ہے اور اس میں ہمیشہ ایک زبردست قفل پڑا رہتا ہے۔ اس مصنوعی راستے میں جوں جوں اوپر چڑھتے جائیے زیادہ جھانکیاں بنی ہوئی ہیں اور ان میں بہت بڑی بڑی توپیں لگی ہوئی ہیں، ہر توپ کے پاس بہت سے گولے رکھے ہیں۔ جھانکیوں کی قطع باہر سے ایسی رکھی گئی ہے کہ صرف کوہستانی غار کی صورت میں نظر آتی ہیں اور یہ خیال بھی نہیں ہو سکتا کہ ان کے اندر توپیں ہیں۔ یہ ایک ہی سرنگ نہیں، ایسی ایسی بہت سی سرنگیں ہیں اور اتنا بڑا قلعہ ہے کہ دوچار دن میں بھی انسان بہ مشکل دیکھ سکتا ہے۔ علاوہ بریں جو خاص راز کے اور پوشیدہ مقامات رکھے گئے ہیں، وہ کسی کو دکھائے بھی نہیں جاتے۔

قلعہ کے باہر پہاڑ کے وسط میں ایک پرانی مسلمانوں کی بنائی ہوئی عمارت کھڑی ہے جو اولڈ مورش کیسل (یعنی موراکو والوں کا قدیم قلعہ) کہلاتی ہے۔ میں نے اس عمارت کو ہر چیز کی بہ نسبت زیادہ توجہ سے دیکھا، اب یہ عمارت ایک نہایت ہی بوسیدہ کھنڈر کی شان سے کھڑی ہے اور اسلامی تاریخ کا ایک کرم خوردہ ورق ہے۔ اسپین کی اسلامی سلطنت نے عمارت میں جو ترمیم کی تھی اور اس میں جس قسم کی خوبصورتی پیدا کی تھی، اس کا پتہ اس عمارت سے نہیں لگتا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سلطنت اسلامی کے بہت ابتدائی زمانہ میں اس کی تعمیر ہوئی تھی۔ ہزارہا سال کی برساتوں، بجلیوں، زلزلوں اور طوفانوں، غرض ہر طرح کی ارضی و سماوی آفتوں کی مار پڑی اور صدہا پولیٹیکل انقلاب ہوئے، مگر یہ محل آج تک کھڑا زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ اتنی آفتوں پر بھی اس نے اپنے بانیوں کے ساتھ بے وفائی نہیں کی اور اِس وقت تک ہر گزرنے والے کو اُن کا نام بتا رہا ہے۔

یہ سب چیزیں دیکھ کے ہم پھر شہر میں واپس آئے۔ یہاں کے لوگوں میں نہ دیگر بلاد یورپ کی سی صفائی ہے اور نہ وہاں کی سی دولت مندی۔ غربا بوجھ کو پیٹھ پر لادے اور پھٹے پرانے، میلے کچیلے کپڑے پہنے سڑکوں پر ٹہلتے نظر آتے ہیں۔ غریب مسافر اُسی طرح کی میلی اور ذلیل گٹھریاں سر پر اٹھائے بندرگاہ میں دکھائے دیتے ہیں، جیسے کہ آپ ہندوستان کے اسٹیشنوں پر دیکھا کرتے ہیں۔ بعض لوگ ایسی خراب اور ذلیل و پست حالت میں نظر آتے ہیں کہ دیکھنے والے کو بے انتہا ترس آتا ہے۔

چونکہ عموماً لوگ رومن کیتھولک مذہب کے پابند ہیں، لہذاننوں اور تارک الدنیا پادریوں کا زور ہے ، مگر یہاں کی ننین بھی خراب حالت میں نظر آتی ہیں، وہ ایسی خوش حال نہیں ہیں جیسے کہ ہندوستان کے پادری جو دین کا نام لےکے لاکھوں روپیہ اپنی تنخواہوں میں صرف کردیا کرتے ہیں۔ مجھے یہاں زیادہ تر اس بات کے دریافت کرنے کی فکر تھی کہ خاص یہاں کے لوگوں میں بھی کوئی مسلمان ہے، اس بارہ میں مجھے گاڑی والے نے مدد دی اور اسی کے بتانے سے معلوم ہوا کہ ہاں ہیں، مگر افسوس یہ نہ پوچھیے کہ کیسے اور کس حال میں ہیں، اس بارۂ خاص میں جو صدمہ مَیں وہاں سے اپنے دل پر لے کے آیا ہوں شاید زندگی بھر نہ مٹے گا۔ جتنے سڑک صاف کرنے والے حلال خور اور اسی قسم کے اور ادنی پیشہ والے ہیں، اکثر مسلمان ہیں۔ تمام گلی کوچوں میں جو شخص سب سے زیادہ ذلیل نظر آئے، جان لیجیے کہ مسلمان ہے اور اس قدر ذلیل کہ راہ چلتے لوگ مار دیتے ہیں، گاڑی ہنکانے والے کوڑے پھٹکارتے ہیں اور وہ دانت نکال کے اور خوشامد کرکے رہ جاتے ہیں۔ خود میں جس گاڑی پر سوار تھا، اس کے ہنکانے والے نے بھی ایک سڑک صاف کرنے والے مسلمان پر زور سے کوڑا مارا اور در اصل اس کی چوٹ مجھے لگی۔ میں نے دل میں کہا کہ افسوس یہی لوگ کبھی یہاں کے حکمران تھے اور یہی لوگ آج اس حال میں ہیں۔ میں نے دریافت کیا کہ ان لوگوں کی یہاں کوئی مسجد بھی ہے۔ معلوم ہوا، نہیں۔ مسجد ہونا کیسا، یہ بھی نہیں جانتے کہ نماز کیونکر پڑھی جاتی ہے اور اصول اسلامیہ کیا ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون! مسلمانو! سچ یہ ہے ان لوگوں کی تصویر صاف بتا رہی ہے کہ غیر قوم کی ماتحتی میں اپنے قومی غرور اور تعصب پر قائم رہنے کا کیا نتیجہ ہے۔ الغرض ان لوگوں کی حالت پر روتا اور دل ہی دل میں افسوس کرتا ہوا چھ گھنٹہ کے بعد میں جہاز پر واپس آیا، چند ساعت میں جہاز روانہ ہوا اور تھوڑی ہی دیر میں ہم بحیرۂ روم کے خوش رنگ نیلے پانی کا سماں دیکھتے دیکھتے دونوں طرف کے سواحل سے جدا ہوگئے۔



[1]۔ جن دنوں موسیٰ بن نصیر، ولید بن عبدالملک کی خلافت کے زمانے میں یہاں پہنچے ہیں، ان دنوں شہر سبتہ پر جولین نام ایک شخص شاہ اسپین رزریق کی طرف سے حکومت کرتا تھا اور چونکہ ان دنوں معمول تھا کہ دربار داری کے آئین و قوانین سکھانے کے لیے اکثر امرا و عہدہ داراپنی بیٹیوں کو خاص بادشاہ کے حرم (گذشتہ سے پیوستہ) میں بھیج دیا کرتے تھے، لہذا جولین کی بیٹی بھی دار السلطنت طلیطلہ (ٹالڈو) میں خاص رزریق کے محل میں رہتی تھی۔ بادشاہ کو چاہیے تھا کہ حسب اصول مروجہ جولین کی بیٹی پر شفقت پدرانہ ظاہر کرتا، مگر اس نے الٹے لڑکی کی آبروریزی کی اور بہ جبر بے عصمت کر ڈالا۔ لڑکی اس ذلت کے بعد بھاگ کے اپنے باپ کے پاس آئی اور جولین نے غضب آلود ہوکے موسی بن نصیر سے اتفاق کیا اور مسلمانوں کے جنرلوں کو ساتھ لے کے چڑھ دوڑا۔