شرر کے سفرنامے/سوئٹزرلینڈ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

سوئٹزرلینڈ


یورپ میں سوئٹزرلینڈ کو قریب قریب وہی حیثیت حاصل ہے جو ایشیا میں ہمالیہ اور کاکیزس ماؤنٹین (کوہ قاف) کی وادیوں کو، بلکہ بعض انگریزی سیاح تو دعویٰ کرتے ہیں کہ سوئٹزرلینڈ کی نزہت و شادابی اور وہاں کی سینریوں کی خوش نمائی ونظر فریبی دنیا بھر کے ممالک سے بڑھی ہوئی ہے۔ خیر اس کو تو ہم اسی خود پسندی کے اصول پر مبنی سمجھتے ہیں جس بنا پر کہ بعض وطن دوست انگریز لندن کے گرجے سینٹ پال کو روم کے سینٹ پیٹرس اور ملا ن کے بڑے کنیسہ پر ترجیح دینے لگے ہیں، لیکن اس میں شک نہیں کہ سوئٹزرلینڈ کے سواد میں خدا نے بہت کچھ دلفریبیاں ودیعت کر رکھی ہیں۔ کوہسار آلپس کا سلسلہ ملک کو ایک طرف سے دوسری طرف تک قطع کرتا چلا گیا ہے اور اسی کوہستان کے دامنوں اور اونچے اونچے سر بفلک قلوں کی گھاٹیوں میں یہ چھوٹا سا ملک آباد ہے اور جس طرف نگاہ اٹھا کے دیکھیے ایک ایسا دلفریب اور دلچسپ عالم نظر آتا ہے کہ ہر جگہ ؏

کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جاست

تاہم کوہ قاف کی گھاٹیوں اور سرکیشیا کی سرزمین کی طرح یہاں یہ بات کہاں کہ نباتی پھولوں اور سبز پوشان چمن کی طرح انسانی چہرے بھی ہر طرف دلفریبیاں کر رہے ہوں، وہ پری جمال اور دلربا چہرے جو صدہا سال سے ایران اور روم کی حرم سراؤں کی رونق رہا کیے ہیں اور وہ نازک اندام اور آفت زمانہ لڑکیاں جو کوہ البرز وغیرہ کی گھاٹیوں کے لطیف آبشاروں میں ہاتھ منہ دھوتی اور مویشیوں کے گلے چراتی نظر آتی ہیں، ان کا سوئٹزر لینڈ کی بھدی مگر توانا و تندرست عورتوں میں کہیں پتہ نہیں۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آلپس کی گھاٹیوں میں چاہے وہ دل فریب حسن و جمال نہ ہو مگر ایسے ایسے نظر فریب منظر اور اس طرح کی جاں بخش سینریاں آنکھوں کے سامنے سے گزرتی ہیں کہ ہر مقام پر یہی جی چاہتا ہے کہ دین و دنیا چھوڑ کے یہیں بیٹھ رہئے۔

الغرض یہ اور ایسا روح افزا اور فرحت بخش ملک ہے جہاں ہم ملان سے ریل پر سوار ہوکے اور اٹلی کی سرحد سے نکل کے پہنچے۔ ملان سے ٤ بجے کے قریب تیسرے پہر کو سوار ہوئے تھے۔ رات ہونے تک بلکہ اس وقت تک جب کہ ہم نے لیٹ کے سونے کا تہیہ کیا، وہی اٹلی کے خوشنما، تر و تازہ اور انگور کی بیلوں سے گھرے ہوئے کھیت نظر کے سامنے تھے، جن کے دیکھنے سے آنکھیں سیر ہو گئی تھیں اور جن میں اب کوئی جدت نہیں نظر آتی تھی۔ صبح کو تڑ کے ہی اٹھائے گئے،اس لیے کہ ٹرین چیاسو میں کھڑی ہوئی تھی جو جنوب کی طرف سوئٹزرلینڈ کا سرحدی اسٹیشن ہے اور جہاں مسافروں کے اسباب کی تلاشی لی جاتی ہے۔ ہم سب اپنا اسباب لے لے کے گاڑی سے اترے اور قیدیوں کی طرح ایک بڑے کمرے میں بند کر دیے گئے۔چنگی وصول کرنے والوں نے صندوقوں کو کھول کھول کے دیکھا اور پاس کیا۔ اس سخت امتحان سے نجات حاصل کرتے ہی ہم ایک دوسرے دروازے سے پھر پلیٹ فارم پر آئے اور گاڑی میں اسباب رکھا۔ موسمی صحت بخشی اور یہاں کی زندگی بخش آب و ہوا نے اتنا اثر یہیں ظاہر کر دیا کہ صبح کو ہم خلاف معمول بہت بھوکے اٹھے، کھانا ملنے میں ابھی دیر تھی اور انتظار کی طاقت نہ تھی۔ اسٹیشن پر نہایت عمدہ تر و تازہ اور شاداب انگور بکنے کو آئے جو بہت سستے تھے، ہم نے لے کے خوب سیرہو کے کھائے اور گاڑی آگے کو روانہ ہوئی۔

تھوڑی دیر تک تو وہی اٹلی کی سواد نظر آتی رہی، مگر دو چار گھنٹے کے بعد ہمیں کوہستان آلپس کے سلسلے کی چوٹیاں نظر آنے لگیں اور زیادہ انتظار نہیں کرنے پائے تھے کہ انھیں پہاڑیوں کے اندر ہماری ٹرین گھسنے لگی اور وہ قدرتی مناظر ہماری نظر کے سامنے تھے، جن میں انسانی کاریگری کا ہاتھ بالکل نہیں لگاتھا۔ ریل سرسبز اور تر و تازہ پہاڑیوں کے اندر چلی جاتی ہے، کبھی بلندی پر چڑھتی ہے اور کبھی نشیب میں اترتی ہے اور پھر اسی نشیب و فراز کے درمیان میں ایسے خوش سواد اور دل میں ولولہ پیدا کرنے والے مرغزار اور قدرت کے لگائے ہوئے چمن نظر کے سامنے آتے ہیں اور کچھ ایسی کشش سے اپنی طرف بلاتے ہیں کہ ہمارے ایک ہمسفر انگلش دوست بار بار چلا کے کہہ اٹھتے ہیں: “مجھے نہ پکڑنا، میں یہیں کودا پڑتا ہوں”۔ جا بجا بڑے بڑے آبشار پہاڑوں کی چوٹیوں سے بہتے اوراور لہراتے ہوئے نیچے آتے ہیں اور ان سبزہ زاروں میں پانی پہنچا رہے ہیں۔ اکثر جگہ جہاں کہیں کوئی مسطح تختہ ہے، وہاں ایک چھوٹا شہر آباد ہے جس کی سفید سفید اور برف میں دھوئی ہوئی پختہ عمارتیں کچھ ایسی دل فریبی کرتی ہیں کہ ان پر سرور بخش اور جاں افزا وادیوں اور مرغزاروں سے بھی زیادہ بہار نظر آتی ہے۔ ہر چہار طرف سر بفلک پہاڑ جو قوی ہیکل دیوؤں کی طرح سر اٹھائے کھڑے ہیں، انھوں نے بھی انسان کے مانوس بنانے کے لیے برف کے سفید اور اجلے کپڑے پہن کے بہت کچھ مہذب صورت بنالی ہے۔ سردی اب بہت شدت پر ہے اور ہلکی ہلکی نسیم جو ان برف پوش قلہ ہائے کوہ سے آتی ہے، اس قدر ٹھنڈی ہے کہ کپڑوں کے اندر کیا معنی جسم میں اتری جاتی ہے۔ یہ گرمیوں کا موسم ہے جبکہ ہم دھوپ اور لُوہ سے بچنے کے لیے طرح طرح کی تدبیریں کرتے ہیں،مگر یہاں ہم ایسی سردی کھا رہے ہیں جس کا سامنا کبھی یہاں جاڑوں کے موسم میں بھی نہیں ہوا تھا۔

اب ٹرین زیادہ گھنے پہاڑوں اور زیادہ دشوار گھاٹیوں میں ہے۔ کبھی ہم اتنی نشیبی گھاٹیوں میں ہوتے ہیں کہ دونوں طرف معلوم ہوتا ہے سنگین دیواریں آسمان تک چلی گئی ہیں اور کبھی اس بلندی پر ہوتے ہیں کہ سارا عالم ہمیں اپنے نیچے نظر آتا ہے:

گہے بر طارُم اعلیٰ نشینم


گہے بر پشتِ پائے خود نہ بینم


وہ نیچی پہاڑیاں گزر گئیں جن کو قدرت نے کم حثییت دیکھ کر برف کا سفید خلعت نہیں مرحمت کیا اور اب ہم ان عالیشان پہاڑوں کی گود میں ہیں جو بارھوں مہینہ برف کی ٹوپیاں پہنے رہتے ہیں۔ ہم اپنے دونوں طرف دیکھ رہے ہیں کہ برف گھل گھل کے آتی ہے اور ان چشموں اور آبشاروں کی صورت پیدا کرتی ہے جو آگے بڑھ کے بڑے بڑے دریا بن گئے ہوں گے۔ میں نے ہندوستان کی وہ ریلوے لائنیں متواتر دیکھی ہیں جن میں پہاڑو ں کو کاٹ کے راستہ نکالنا پڑا ہے۔ کھنڈالہ جہاں مغربی گھاٹ کے سلسلے کو کاٹ کےگریٹ انڈین پنشولا ریلوے کی جنوبی شاخ نکالی گئی ہے اور ہوشنگ آباد بھوپال کے درمیان میں جہاں کو ہ وندھیاچل کو کاٹنا پڑا ہے، دونوں جگہ میں بارہا گزرا ہوں لیکن ان میں سے کسی کو اس اعلیٰ کمال انجینئری سے کوئی نسبت نہیں جو اس لائن یعنی سینٹ گوتھارڈ لائن کے جاری کر نے اور کوہستان آلپس کے کاٹنے میں سوئٹزرلینڈ میں دکھلایا گیا ہے۔

اگلی دنیا کو یہ راستہ ہی نہ معلوم ہوا تھا۔ کہتے ہیں کہ مسیح سے چھ سو برس پہلے گال یعنی فرانس کے وحشیوں نے اسی راستہ سے آکے دولت روم پر حملہ کیا تھا، مگر یہ صرف قیاس ہی قیاس ہے۔ اصل میں یہ راستہ تیرھویں صدی عیسوی سے کھلا اور لوگوں کو معلوم ہوا۔ اس وقت پا پیادہ چلنے والوں کے لیے ایک لیکھ بنی تھی اور اس قدر دشوار گزار کہ لوگ بہت مشکل و مجبوری سے ادھر گزرنا پسند کرتے تھے۔ اسی صدی کے اختتام کے وقت سے یہ راستہ اتنا وسیع ہو گیا کہ باربرداری کےجانور گزر سکیں جس کے ساتھ ہی تاجرانہ کاروانیں گزرنے لگیں۔ باوجود اس کے سڑک نے اس قدر آہستگی سے ترقی کی کہ 1775؁ء سے پہلے کسی گاڑی کا ادھر سے گزر نا نہیں ثابت ہوتا۔ موجودہ صدی عیسوی کی ابتدا میں اس سڑک کی ترقی دلانے کے لیے بہت کچھ کوششیں کی گئیں۔1820؁ء میں ایک ایسی سڑک تعمیر کی گئی جس پر سے ہو کے ایک گھوڑے کی عمدہ ڈاک گزر سکے، جس کے پچاس سال بعد یہ ریلوے تعمیر جاری ہو گئی جو پہاڑو ں کو قطع کرتی، نہروں اور آبشاروں پر سے گزرتی، بلندیوں پر چڑھتی اور گھاٹیوں سے نکلتی ہوئی جنوب سے شمال کو نکل جاتی ہے اور فی الحال دنیا میں علم انجینئری کا سب سے اعلیٰ نمونہ خیال کی جاتی ہے۔ کبھی کسی کے خیال میں بھی نہ گزرا ہوگا کہ ایسے برفستانی بلند پہاڑوں کے اندرسے یوں ریل کا راستہ جاری ہو جائے گا؛ مگر مکنیکل ترقیاں آج ایسے بہت سے معجزے دکھا رہی ہیں جو اگلوں کے نزدیک خلاف فطرت اوراورانسانی قوت سے بہت بالا تصور کیے جاتے تھے۔

اس لائن کی تعمیر 1872؁ء میں شروع ہوئی اور دس سال بعد 1882؁ء میں جاری ہوگئی۔ یہ مختصر حالات شاید ناظرین کے کسی قدر ذہن نشیں کر سکیں کہ یہ ریلوے لائن کس قدر اہم چیز اور اس عہد کی معجز نمائیوں کا کتنا بڑا مکمل نمونہ ہے۔ اس میں کل 56 ٹنل یعنی سرنگیں ہیں، جن میں سےٹرین کو گز رنا پڑتا ہے اور جن کی مجموعی مسافت یکجا کی جائے تو تقریباً25 میل تک گاڑی پہاڑوں کے اندر ہی جاتی ہے۔ سب سے بڑی سرنگ جومقام گوشنن سے اٹرولو تک گئی ہےاور سینٹ گو تھارڈ کی سرنگ کہلاتی ہے، بجائےخود ایک ایسی چیز ہےکہ انسانی کارستانی کو دیکھ کے قدرت خدا یاد آتی ہے۔ یہ پورے نومیل لمبی ہے جس میں تقریباً آدھ گھنٹے تک ریل گزرتی رہتی ہے۔ اس بڑی سرنگ کے کا ٹنے میں ایک سو ستر جانیں تلف ہوئیں اور مشہور انجینئر لوئیس فادر جس نے اس کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا تھا خود اس سرنگ کی نذر ہوا۔ ان 56 سرنگوں کے علاوہ اس راستہ میں 969اور عمارتیں قائم کرنا پڑیں جن میں 223پل ہیں، جو ٹیڑھے سیدھے مختلف آبشاروں اور چشموں پر یا کسی جگہ کی نشیبی گھاٹیوں پر قائم کیے گئے ہیں۔ اور یہ تمام جھگڑا، اتنی سرنگیں اور اتنے پل اور عمارتیں صرف106میل کی تھوڑی سی مسافت کے اندر محدود ہیں، جس میں 1880؁ء میں10757 آدمی اس لائن کی تیاری و تعمیر میں مصروف تھے اور ساری لائن کی تیاری میں تئیس کروڑ اسی لاکھ فرینک یعنی تقریباً 23کروڑ روپیہ خرچ ہوا اور پھر اس کے بعد بھی آج تک بہت زیادہ مصارف برداشت کیے جاتے ہیں، اس لیے کہ ہر سرنگ کی ہر وقت نگرانی رہتی ہے، ہر پل پر پہرہ مقرر رہتا ہے، ہر نشیب و فراز کی خبر گیری کرنے والے ہر وقت مستعدی سے کھڑے رہتے ہیں، اس لیے کہ یہاں ایک ادنیٰ سی غفلت میں بھی کسی نقصان عظیم کا اندیشہ ہے اور اسی خیال سے بالکل فوجی طریقہ کا انتظام رکھنا پڑتا ہے تاکہ ادنیٰ ادنیٰ واقعات کی خبر دیگر مقامات پر وقت پر پہنچ سکےاور ہر خطرہ نقصان پہنچنے سے پہلے معلوم ہو جائے۔

اس لائن کی دشواریاں صرف اس ایک طولانی اور ساری دنیا سے بڑی سرنگ پر ہی منحصر نہیں ہیں بلکہ اس 106 میل کی مسافت میں کون کون دشواریاں ہیں جو نہیں، دیگر سرنگیں اس بڑی سرنگ سے زیادہ قابل حیرت ہیں؛ اس لیے کہ قُلہ سینٹ گوتھارڈ کی سرنگ بخط مستقیم سیدھی چلی گئی ہے اور دیگر سرنگیں چکر کھاتی ہوئی گئی ہیں۔ اکثر سرنگیں ایسی ہیں جن سے مقصود پہاڑ کو کاٹ کر سیدھا راستہ نکالنا نہیں بلکہ بلندی پر چڑھنامقصود ہے، جس کے لیے کسی بڑے قلہ کے اندر ہی اندر ریل چکر کھاتی ہو ئی جاتی ہے۔ جس مقام سے اندر داخل ہو تی ہے اسی جگہ باہر نکلتی ہے، مگر بہت بلندی پر۔ سرنگ سے باہر نکل کر ہم بخط مستقیم کئی سو فٹ نیچے وہ مقام اور دراز ہ دیکھتے ہیں جس میں سے ہوکے ہم داخل ہوئے تھے اور معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑ کے اندر ہی اندر ہم کتنے بلند ہو گئے۔ اسی طرح کے پانچ چکر پڑتے ہیں جو نہایت ہی گھنے پہاڑوں اور برفستانی وادیوں کے اندر واقع ہیں، چار چکر ہم کو بڑی سرنگ سے پہلے اور ایک بعد ملا۔

انھیں گھاٹیوں کے اندر جہاں جہاں مسطح تختہ نکل آئے ہیں ان پر نہایت ہی خوش سواد اور خوبصورت شہر اور قصبہ آباد ہو گئے ہیں جو ریل کی سڑک سے کہیں نیچے اور کہیں بلندی پر اس خوشنمائی سے اپنی دل فریب تصویر دکھاتے ہیں کہ بے اختیار جی چاہتا ہے کہ یہیں اتر پڑیے اور کارکنانِ قدرت کی صناعیوں کا تماشا دیکھیے۔ مجھے زیادہ جس چیز نے یہاں حیرت میں ڈالا اور جس سے یورپ کی اصلی ترقی کا پتہ لگتا ہے، وہ یہ ہے کہ ایسے گھنے اور تہ در تہ پہاڑ، ایسے ناپیداکنار جنگل اور ایسی پیچیدہ اور بھول بھلیوں کا لطف دکھانے والی گھاٹیاں شاید دنیا کے اور ممالک میں بھی ہوں گی اور یقیناً ہیں، مگر سنسان پڑی ہیں سِوا ان آزاد مشرب طیور یا وحشی درندوں کے جو ہمارے پاک نفس اور صحرا نشین جوگیوں کی طرح خلوت و تنہائی کے مقامات ڈھونڈتے پھرتے ہیں یا قدیم دیوبانی کی دلفریب و دلربا دیویوں کے جو ان مقامات سے بھاگتی پھرتی ہیں جنھیں انسان کے قدم نے ناپاک کردیا ہے، کسی انسان کا شاید کبھی گزر نہ ہوا ہوگا، مگر ان گھاٹیوں اور برفستانی وادیوں میں کوئی قطعہ ایسا نہیں نظر آتا، جہاں انسان نے پورا لطف نہ اٹھایا ہو۔ چپہ چپہ زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ تم ہی پہلے شخص نہیں آئے ہو بلکہ ؏

حریفان بادہ ہا خوردند و رفتند

بلندیوں پر چڑھنے اور گھاٹیوں میں اترنے کے لیے ہر جگہ ایسی خوبصورتی سے راستے نکالے گئے ہیں کہ انسان بآسانی چڑھ اتر سکے اور قدرتی کیفیت اور خود رو ہونے کی سادگی میں فرق نہ آنے پائے۔ انگلستان، فرانس اور دیگر ممالک یورپ اور امریکا و آسٹریلیا سے ہر سال ہزارہا آدمی آتے ہیں اور محض اس غرض کے لیے کہ اس قدرت کے لگائے ہوئے باغ میں پھر کے تر و تازگی اور نئی زندگی حاصل کریں؛ جن کی مہمانداری کے لیے جا بجا ہوٹل اور ریستوران قائم ہو گئے ہیں، جن کی عمارتوں میں داخل ہو کے غریب الوطنی میں امارت کے ٹھاٹھ نظر آتے ہیں اور جنگل میں منگل معلوم ہوتا ہے۔