ساتھ غیروں کے ہے سدا غٹ پٹ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ساتھ غیروں کے ہے سدا غٹ پٹ
by ولی اللہ محب

ساتھ غیروں کے ہے سدا غٹ پٹ
اک ہمیں سے رکھے ہے دل میں کپٹ

چنگل باز ہیں تری مژگاں
طائر دل کو پل میں لے ہے جھپٹ

تیری اس وضع دل ربائی سے
گھر کے گھر ہو گئے ہیں چوڑ چپٹ

وہ بھی دن پھر دکھائے گا اللہ
رات کو سوئے تو گلے سے لپٹ

پاس جب غیر کو بٹھاتا ہے
جائے ہے دل ترے ملاپ سے ہٹ

دیتے ہو بات بات میں بازی
ایک ہو اپنے کام کے نٹ کھٹ

ناز کی تیغ غیر پر مت کھینچ
دل ہمارا کہیں نہ جاوے کٹ

جس طرح چاند پر ہو ابر سیاہ
زلف یوں مکھڑے پر رہی ہے الٹ

عید ہے آج آ گلے مل لیں
دشمنوں کی تو جائے چھاتی پھٹ

غم میں تیرے ہیں اشک یوں جاری
ہر گھڑی جس طرح چلے ہے رہٹ

عشق وہ گھر ہے جس کے شاہ و گدا
با ادب چومتے رہے چوکھٹ

کل شیََٔ محیط کی تقریر
کھٹ سے انسان کے ہوئے پرگھٹ

دل بیچارہ اک تن تنہا
فوج غم آئے ہے تمام سمٹ

دوست کی ہو مدد تو یک دم میں
جائے یہ معرکہ تمام پلٹ

یاں قدم راہ پر سوائے نہ رکھ
اے محبؔ راہ عشق کی ہے بکٹ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse