جیسے بھی یہ دنیا ہے جو کچھ بھی زمانا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جیسے بھی یہ دنیا ہے جو کچھ بھی زمانا ہے
by باسط بھوپالی

جیسے بھی یہ دنیا ہے جو کچھ بھی زمانا ہے
سب تیری کہانی ہے سب میرا فسانا ہے

اک برق سیہ مستی اک شعلۂ مدہوشی
مینا سے گرانا ہے ساغر سے اٹھانا ہے

تم تک نہ پہنچ جائے لو شمع محبت کی
جب طور کو پھونکا تھا اب دل کو جلانا ہے

محدود زباں کب تک افسانہ محبت کا
آنکھوں سے بھی کہنا ہے دل سے بھی سنانا ہے

اللہ رے تنظیم حیرت کدۂ ہستی
دیکھو تو حقیقت ہے سمجھو تو فسانا ہے

آہیں بھی نہیں رکتیں نالے بھی نہیں تھمتے
اور ان کو محبت کا افسانہ سنانا ہے

وہ حسن مجسم ہیں ہم عشق مکمل ہیں
ان کا بھی زمانہ ہے اپنا بھی زمانا ہے

جلوے کہیں چھپتے ہیں نظریں کہیں رکتی ہیں
پردہ نہ اٹھانا بھی پردہ ہی اٹھانا ہے

بلبل کی محبت سے وہ راز رہے کب تک
کلیوں کی زباں پر جو مبہم سا فسانا ہے

تدبیر بھی یہ کہہ کر رخصت ہوئی فرقت میں
تقدیر کی دنیا ہے قسمت کا زمانا ہے

کچھ درد کے پہلو ہیں کچھ یاس کی باتیں ہیں
افسانہ مرا کیا ہے رونا ہے رلانا ہے

ناکام محبت کی اللہ رے مجبوری
جینے کی نہیں فرصت مرنے کو زمانا ہے

کیا قہر ہے اے باسطؔ یہ طبع حیا پرور
ان کی ہی محبت ہے ان سے ہی چھپانا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse