جو بات ہے تیری سو نرالی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو بات ہے تیری سو نرالی
by میر اثر

جو بات ہے تیری سو نرالی
عشاق کشی نئی نکالی

تیر مژگان بھی ہے اس پر
ابرو کی تیغ بھی سنبھالی

سمجھے ہے ظاہراً وہ دل کی
دیتا ہے جو در جواب گالی

ناخن زن ہیں بدل یہ انگشت
یہ صرف نہیں حنا کی لالی

ہیں روز ازل سے ہم گرفتار
دیکھی نہ کبھو فراغ بالی

تو تو ہے ہی پہ میں بھی پیارے
ہوں بے پروائی لاابالی

کس طرح دکھاؤں آہ تجھ کو
میں اپنی یہ خراب حالی

ہم ہیں بندے دنی و اسفل
اور آپ کا ہے مزاج عالی

آئینۂ دل میں محو ہو کر
صورت ہی کچھ اور اب نکالی

ہے تجھ سے ہی عاشقوں کی خوبی
یا حضرت دردؔ میرے والی

دیوان اثرؔ تمام دیکھا
ہے اس میں ہر ایک شعر عالی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse