تیرے وعدوں کا اعتبار کسے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تیرے وعدوں کا اعتبار کسے
by میر اثر

تیرے وعدوں کا اعتبار کسے
گو کہ ہو تاب انتظار کسے

اک نظر بھی ہے دید مفت نظر
اتنی فرصت بھی اے شرار کسے

جوں نگیں یاں سوائے روسیہی
دہر کرتا ہے نامدار کسے

دل تو ڈوبا اب اور دیکھیں ڈبائیں
یہ مری چشم اشکبار کسے

تیرے وعدوں کو میں سمجھتا ہوں
دھوکا دیتا ہے میرے یار کسے

تو بغل سے گیا تھا دل بھی گیا
اور لے بیٹھوں درکنار کسے

میں تو کیا اور بھی سوائے صبا
تیرے کوچے تلک گزار کسے

دیکھتا ہی نہیں وہ مست ناز
اور دکھلاؤں حال زار کسے

خوب دیکھے اثرؔ نے قول و قرار
اب ترے قول پر قرار کسے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse