بے کسی میں اثر یگانہ ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بے کسی میں اثر یگانہ ہے
by میر اثر

بے کسی میں اثر یگانہ ہے
دل بھی اس کا نہیں بیگانہ ہے

غرض آئینہ داری دل سے
تیرا جلوہ تجھے دکھانا ہے

مثل نقش قدم میں جب تئیں ہوں
آنکھیں ہیں اور یہ آستانا ہے

یہی تار نفس کی آمد و شد
جامۂ تن کا تانا بانا ہے

گلے ملنا نہ گو کہ ہاتھ لگے
لیک منظور دل ملانا ہے

نام عنقا نشان تیرے کا
جوں نگیں دل میں آشیانا ہے

دوست دشمن سبھی ہوئے ہیں تیرے
کیا برائی کا اب زمانا ہے

دل گم گشتہ کو میں ڈھونڈوں کہاں
نہ کہیں ٹھور نے ٹھکانا ہے

ہے دیوانہ بہ کار خود ہشیار
یہ نہ سمجھو اثرؔ دیوانا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse