اس سے کیا چھپ سکے بنائی بات

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس سے کیا چھپ سکے بنائی بات (1900)
by حبیب موسوی
324752اس سے کیا چھپ سکے بنائی بات1900حبیب موسوی

اس سے کیا چھپ سکے بنائی بات
تاڑ جائے جو دل کی آئی بات

کہئے گزری ہے ایک ساں کس کی
کبھی بگڑی کبھی بن آئی بات

رہے دل میں تو ہے وہ بات اپنی
منہ سے نکلی ہوئی پرائی بات

میں سمجھتا ہوں یہ نئی چالیں
کبھی چھپتی نہیں سکھائی بات

کہہ دیا اپنے دل کو خود بے رحم
چھین لی میرے منہ کی آئی بات

رکھ لیا عاشقوں نے نام وفا
گئی جاں پر نہ جانے پائی بات

رنگ بگڑا ہے ان کی صحبت کا
اب نہیں ہے وہ ابتدائی بات

مجھ سے بے وجہ ہوتے ہو بد ظن
کر کے باور سنی سنائی بات

کیا ہو ان کا مزاج داں کوئی
روٹھنا کھیل ہے لڑائی بات

غیر کا ذکر گر نہ تھا صاحب
میرے آتے ہی کیوں اڑائی بات

دل میں رکھتا ہے خوب سن کے حبیبؔ
چاہے اپنی ہو یا پرائی بات

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse